احتساب عدالتوں کی کمی سے 188 میگا کرپشن کیسز لٹکنے لگے

کراچی(رپورٹ فرحان راجپوت)عدالتی احکامات کے باوجود احتساب عدالتوں کی کمی سے کراچی میں میگا کرپشن کے اسکینڈل کے 188نیب ریفرنس لٹکنے لگے۔ جس میں کئی برسوں سے زیر التوا ریفرنس بھی شامل ہیں، صرف ایک عدالت میں 47 مقدمات زیر سماعت ہیں ۔ ریکارڈ کے مطابق کرپٹ عناصر کے خلاف کارروائیوں کے نتیجے میں کراچی میں قائم 4قائم احتساب عدالتوں میں نیب ریفرنس کی تعداد 188ہو چکی ہے۔ عدالتوں میں اسٹاک ایکسچینج فراڈ، بینکوں میں غبن،ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر لوگوں سے لوٹ مار،چائنہ کٹنگ ،اسٹیل مل ریفرنس،این آئی سی ایل اسکینڈل،مضاربہ اسکینڈل، اختیارات کے غلط استعمال ،شرجیل میمن،ڈاکٹر عاصم،سندھ پولیس کرپشن اسکینڈل،سابق سیکریٹری بلدیات علی احمدلونڈ، سابق سیکریٹری آفتاب میمن،بابرغوری، صوبائی حکومت کے افسران سمیت پرائیویٹ افراد کے خلاف ریفرنسز زیر سماعت ہیں۔ کراچی میں قائم 4احتساب عدالتوں میں سے فی کس عدالت میں 47مقدمات زیر سماعت ہیں نیب ریفرنس ہزاروں صفحات ،دستاویزات اور ہزاروں گواہوں پر مشتمل ہے۔نیب کے ایک ریفرنس میں گواہوں کی تعداد 15سے کم نہیں ہوتی ہے ۔متعدد ریفرنسز میں گواہوں کی تعداد 2درجن اور 3درجن ہے، جن کی مجموعی طور پر تعداد بہت زیادہ بنتی ہے۔ امت کو سروے کے دوران معلوم ہوا کہ بعض اوقات گواہوں کا بیان ریکارڈ ہی نہیں ہو پاتا ہے، جس کی وجہ سامنے آئی ہے کہ فاضل جج دستاویزات کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں دوسرے دن گواہ کو پیش ہونا ہے تو گواہ نجی مصروفیت کے باعث پیش نہیں ہوتا ہے ۔بعض اوقات بڑے ملزمان کے مہنگے وکلا تاخیری حربے استعمال کرتے ہیں، متفرق درخواستیں دائر کرتے ہیں ،جس میں زیادہ تر کیس ختم کرنے اور ملزمان کو بری کرنے کی درخواستیں ہوتی ہیں، ان درخواستوں پر ملزمان اور نیب کے وکلا دلائل دیتے ہیں ،جس میں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ احتساب عدالتوں کے ججز صاحبان اضافی وقت میں عدالتیں چلا رہے ہوتے ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق کراچی میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے مقدمات کو مد نظر رکھتے اعلیٰ عدالت نے وفاقی حکومت کو ہدایت کی کہ کراچی میں مزید 2احتساب عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جائے ،تاکہ ہزاروں صفحات اور دستاویزات پر مشتمل نیب ریفرنسز کو عدالتوں میں تقسیم کر کے موجودہ ججز صاحبان پر سے کام کے اضافی بوجھ کو ختم کیا جاسکے ،لیکن عرصہ گزر جانے کے باوجود وفاقی حکومت کراچی میں مزید 2عدالتیں قائم نہیں کرسکی ہے۔ریکارڈ کے مطابق نیب حکام نے سابق سیکریٹری بلدیات علی احمد لونڈ کے خلاف دسمبر 2015میں حیثیت سے زائد اثاثے بنانے اور اختیارات کے غلط استعمال پر قومی خزانے کو 22کروڑ 50لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔مضار بہ اسکینڈل کے قاری احسان الحق سمیت دیگر ملزمان کے خلاف لوگوں کو سرمایہ کاری کے نام پر8 ارب روپے کا چونا لگانے کا ریفرنس فروری 2014میں داخل ہوا تھا ،نیب نے این آئی سی ایل اسکینڈل کے مرکزی کردار ایاز خان نیازی سمیت دیگر ملزمان کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال،مہنگے داموں اراضی خریدنے سمیت دیگر دفعات کے تحت 2ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے کے ریفرنس 2013اور 2014 میں داخل کیے تھے۔ نیب نے اسٹیل مل اسکینڈل معین آفتاب شیخ سمیت دیگر ملزمان کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال غیر قانونی طریقے سے سستے داموں اسٹیل مل کی اشیاء فروخت کرنے سمیت دیگر الزامات کے تحت 1ارب 23 کروڑ روپے سے زائد کا قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا ریفرنس جنوری2016میں داخل کیا تھا۔ یہ کیس بھی زیر التوا ہے۔ 2014میں نیب نے مضار بہ اسکینڈل کے مرکزی کردار قاری شفیق الرحمن سمیت دیگر ملزمان کے خلاف لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کر کے 5ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے کا ریفرنس دائر کیا تھا۔ ساڑھے 4سال سے لوگ انصاف کے منتظر ہیں۔سابق سیکریٹری لینڈ آفتاب میمن سمیت دیگر ملزمان کے خلاف کے پی ٹی کی اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ کر کے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچانے کا ریفرنس 2016میں داخل ہوا تھا ،لیکن نمٹ نہیں سکاہے،نیب نے بورڈ آف ریونیو کے سابق مرحوم سنیئر ممبر بورڈ آف ریونیو سمیت دیگر ملزمان ،سابق سیکریڑی غلام مصطفی پھل کے خلاف قومی خزانے کو اربوں روپے کے نقصان پہنچانے کے ریفرنسز ایک سال قبل داخل کیے تھے، جو کہ زیر التوا ہیں۔نیب نے ڈاکٹر عاصم کے خلاف 2016 میں 479ارب روپے کا قومی خزانے کو نقصان پہنچانے 2 ریفرنس 2016میں داخل کیے تھے ،اس کیس میں تمام ملزمان ضمانتوں پر آزاد ہیں ،لیکن کیس نمٹنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ ڈاکٹر عاصم سمیت دیگر ملزمان کے خلاف 462اور 17ارب روپے کے ریفرنسز دائر ہوئے تھے۔ نیب نے ہی پیپلز پارٹی کے شرجیل انعام میمن سمیت دیگر ملزمان کے خلاف قومی خزانے کو پونے6ارب روپے کا نقصان پہنچانے پر ایک سال قبل ریفرنس داخل کیا تھا ،جو کہ زیر سماعت ہے،نیب نے 2015میں چنوں ماموں کے ساتھیوں کے خلاف چائنہ کٹنگ کر کے قومی خزانے کو40کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا تھا۔ لائنز ایریا اسکینڈل کا 2015سے کیس زیر سماعت ہے۔ اسی طرح احتساب عدالتوں میں دیگر نوعیت کے ریفرنسز زیر سماعت ہیں اس حوالے سے بیرسٹر خواجہ نوید احمد نے امت کو بتایا ہے کہ نیب ریفرنسز بہت پیچیدہ ہوتے ہیں، جن کو نمٹانے میں وقت لگتا ہے ،کیونکہ ہزاروں دستاویزات ہوتے ہیں ،ججز صاحبان دستاویزات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں، پھر نیب کے گواہوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے ،گواہ بھی 2سو دستاویزات جمع کرا دیتا ہے، بیان ریکارڈ ہونے اور جرح تک میں کافی وقت لگ جاتا ہے، پھر ججوں پر بہت زیادہ کام بڑھ چکا ہے، اس لیے تاخیر ہوتی ہے، لہذا کرپشن ریفرنسز کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے ضروری ہے کہ مزید عدالتیں قائم کی جائیں، تاکہ مقدمات تقسیم کیے جائیں اور عوام کو جلد انصاف ملے۔

Comments (0)
Add Comment