پشاور(نمائندہ خصوصی)پاکستان کوامریکہ کی جانب سے افغان مسئلے کے حل کیلئے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی درخواست پر بھارت نے پھر افغانستان میں سازشوں کا جال بچھا دیا ۔’’امت ‘‘کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق بھارت افغانستان میں پاکستان کو دیئے جانے والے کردار پر نا صرف ناراض ہے ،بلکہ اس نے افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی اور شمالی اتحاد کے درمیان ناراضگی ختم کرنے کے لئے بھی کوششوں کا آغاز کردیا ہے ۔’’امت ‘‘کے ذرائع کے مطابق اس امر کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بدھ کی رات افغان دارالحکومت کابل میں سابق افغان صدر حامد کرزئی کی صدارت میں ایک خفیہ اجلاس ہوا ،جس میں شمالی اتحاد کے بعض رہنمائوں نے بھی شرکت کی ،جبکہ اجلا س میں بھارتی سفارتخانے کے اہلکار بھی شامل تھے ۔اجلاس میں شریک ذرائع کے مطابق حامد کرزئی نے واضح طور پر کہا کہ افغانوں کو امریکہ سے کہنا چاہیے کہ پاکستان کے ذریعے قائم کئے جانے والا امن معاہدہ ہمیں منظور نہیں ہو گا اور اس کے خلاف ہم جدوجہد کریں گے ۔کرزئی نے شرکا کو بتایا کہ اس کے لئے افغانوں کے اہم رہنمائوں کو اپنے اپنے ذرائع اور وسائل استعمال کرنا ہونگے ،کیونکہ پاکستان کو کردار دینے سے افغانستان میں توازن بگڑ جائے گا اور افغانوں کو مشکلات کا سامنا ہو گا ۔کرزئی نے امریکیوں کو متنبہ کیا کہ مبینہ طور پر پاکستان ہی افغانستان کے مسائل کا ذمہ دار ہے ۔اس لئے پاکستان کو کردار نہ دیا جائے اور ہمیں پاکستان کا کردار منظور نہیں ہے۔ کرزئی نے اس موقع پر امریکہ سے مطالبہ کیا کہ پاکستان کے بجائے چین اور روس کے ساتھ مل کر افغانستان کے مسئلے کوحل کرنے کے لئے طالبان کے ساتھ معاہدہ کیا جائے ۔ا س موقع پر شمالی اتحاد کے بعض رہنمائوں نے بھی اظہار خیال کیا کہ ایران ،چین اور روس کے ذریعے ہونے والا معاہدہ انہیں منظور ہے ،لیکن پاکستان کے ذریعے ہونے والا معاہدہ انہیں منظور نہیں ہے ،وہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے خلاف نہیں ہیں ،تاہم وہ پاکستان کے ذریعے ہونے والے معاہدے کے خلاف ہیں ۔ذرائع نے ’’امت ‘‘کو بتایا کہ افغان صدر اور شمالی اتحاد کے رہنمائوں کے درمیان اختلافات اور ناراضگی کو دور کرنے کے لئے بھارتی سفارتی حکام سرگرم ہو گئے ہیں اور انہوں نے دونوں فریقین سے ملاقاتیں شروع کر دی ہیں، کیونکہ بھارت کو یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں ہے اور پاکستان کے ذریعے افغانستان میں امن سے نا صرف پاکستان کا کردار بڑھ جائے گا ،بلکہ مستقبل میں افغانستان اور خطے میں پاکستان کا کردار مضبوط ہو جائے گا ۔اس لئے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے شمالی اتحاد اور کرزئی کے درمیان اختلافات کو ختم کرنا ضروری ہے ۔سابق افغان صدر حامد کرزئی اپنے دور میں پاکستان سے مذاکرات کے لئے بھیک مانگتے تھے ،لیکن اب اپوزیشن میں ہوتے ہوئے ،وہ پاکستان کے مخالف ہو گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ بھارت چاہتا ہے کہ کرزئی کو دوبارہ صدارتی امیدوار بنانے کے لئے شمالی اتحاد ان کی حمایت کرے ،کیونکہ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے کرزئی کو صدر بنانے کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے اور حزب اسلامی حنیف اتمر کو صدر بنانا چاہتی ہے ،جو اس وقت غیر متنازعہ تصور کئے جارہے ہیں ،جن کے روس ،پاکستان ،ایران ،امریکہ اور عرب ممالک سے خصوصی تعلقات ہیں ،جبکہ وہ ماضی میں کرزئی کے دوست بھی رہے ہیں اور کرزئی کو پناہ دینے میں بھی حنیف اتمر کا ہمیشہ بڑا کردار رہا ہے ۔ذرائع کے مطابق بھارت نے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لئے کرزئی اور شمالی اتحاد کے بعض رہنمائوں کو دورے کی دعوت دی ہے اور 26جنوری کو یوم جمہوریہ پر انہیں نئی دہلی مدعو کیا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت چاہتا ہے کہ اسے بھی افغانستان کے ان مذاکرات میں شامل کیا جائے ،کیونکہ بھارت سمیت بعض ممالک چاہتے ہیں کہ امریکہ 2024تک افغانستان میں رہے ،لیکن طالبان اس بات کو ماننے کے لئے اب تیار نہیں ہیں ۔ذرائع نے ’’امت ‘‘کو بتایا کہ پہلے 21میں سے پانچ اڈوں پر امریکی فوج کی تعیناتی پر طالبان پانچ سال قبل رضا مند تھے ،لیکن اب امریکا صرف ایک باگرام فوجی اڈے پر آٹھ سو فوجیوں کی تعیناتی چاہتا ہے ،جسے طالبان ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں ،تاہم طالبان افغانستان سے امریکی انخلا کے لئے وقت دینے کیلئے تیار ہیں ،تاہم اس کے لئے بھی طالبان کی جانب سے یہ شرط عائد کی گئی ہے کہ امریکہ اپنا تمام اسلحہ افغانستان سے واپس لے جائے گا اور افغانستان کے کسی بھی متحارب گروپ کو یہ اسلحہ نہیں دیا جائے گا ۔افغان طالبان اور امریکا کے درمیان رابطوں میں تیزی آئی ہے اور اس حوالے سے پکتیا ،خوست اور پکتیکا کے قبائلی عمائدین نے حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنمائوں سے ملاقاتیں کی ہیں کیونکہ زلمے خلیل زاد جو افغان نژاد پشتون ہیں انہوں نے ماضی میں سفیر کے طور پر جب افغانستان میں وقت گزارا تھا تو اس وقت انہوں نے پکتیا ،خوست ،پکتیکا،لوگر ،غزنی کے نا صرف دورے کئے تھے بلکہ ان کے قبائلی عمائدین کو وقتاً،فوقتاً امریکی سفارتخانے بھی بلاتے رہے۔ اب انہوں نے افغانستان کی موجودہ صورتحال میں ان قبائلی سرداروں سے مذاکرات میں مد ددینے کے لئے رابطہ کیا ہے ۔