کراچی (اسٹاف رپورٹر)سندھ کے شوگر مل مالکان گنے کی فی من قیمت182 روپے مقرر کئے جانے کا نوٹی فکیشن تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے چینی کے کارخانے چلانے سے بدستور گریزاں ہیں ۔ شوگر مل مالکان نےگنے کی فی من قیمت میں52 روپے کمی کے ساتھ قیمت130 روپے من مقرر کرنے کا مطالبہ کر دیا ۔شوگر مل مالکان نے ایک بار پھر عدالت سے رجوع کرنے پر غور کا عندیہ دیتے ہوئے کہاہے کہ گنے کی امدادی قیمت چینی کے نرخ مدنظر رکھتے ہوئے مقرر کی جائے ۔سندھ کی5 شوگرملوں نے گنے کی کرشنگ شروع کر دی ہے۔سندھ ہائی کورٹ اور صوبائی حکومت کی جانب سے30نومبرسے کرشنگ کے حکم کے باوجود27 شوگر ملوں نے مقرر تاریخ کو9دن گزر نے کے باوجودگنے کی پسائی شروع نہیں کی۔ملیں ہر سال تاخیر سے چلنے و نرخ تنازعات کی وجہ سےسندھ میں گنے کی پیداوار کم ہونے لگی ہے۔ اس بار سندھ میں20 فیصد اراضی پر گنے کی کاشت کم ہوئی۔آبادگاروں کو خدشہ ہے کہ ملیں تاخیر سے چلنے پرگنے کا وزن کم ہوجائے گا جس سے انہیں نقصان ہوگا۔گنے کی بروقت فصل کٹائی نہ ہونے سے ربیع میں انہیں گندم کی کاشت میں بھی تاخیر سے نقصان ہوگا ۔ محکمہ زراعت سندھ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر مالکان نے گنے کی فی من امدادی قیمت مسترد کرتے ہوئے فی من گنے کی قیمت 130 روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہےکہ گزشتہ سیزن کے مقابلے میں فی کلو چینی کے ایکس مل نرخ میں2 سے3 روپے بڑھے ہیں۔گزشتہ سیزن میں عدالتی حکم پر سندھ میں فی من امدادی قیمت 160 روپے مقرر کی گئی تھی۔شوگر مل مالکان حکمت عملی کے تحت فی من امدادی قیمت 130 روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ نرخ 165 روپے سے زیادہ نہ ہوں۔وفاقی حکومت کے ذرائع کا کہنا ہے کہ سیلز ٹیکس فی کلو60 روپے کے بجائےموجودہ نرخ کے مطابق لینے ،ایک لاکھ ٹن چینی کی برآمد اور سبسڈی دینے کی یقین دہانی کے باوجود مالکان ملیں چلانے میں ٹال مٹول کر رہے ہیں۔روپے کی قیمت گرنے سے بھی مل مالکان کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ فائدہ ہو گالیکن وہ چاہتے ہیں گزشتہ برس کی طرح اضافی سبسڈی کی رقم دی جائے ۔حکومت سندھ کے ذرائع کے مطابق اب تک 5 شوگر ملوں نے ہی سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق 30نومبرکوگنے کی کرشنگ شروع کی ہے ۔عدالت کی مقرر کردہ مدت کو 9 روز گزرنے کے باوجوداب تک27ملوں نے کرشنگ شروع نہیں کی ۔اومنی کی9 ملیں سیل ہونے کے باعث بند ہیں۔باقی18 ملیں دیگر کی ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے ملیں تاخیر چلنے کی ذمہ داری کے پیچھے اومنی گروپ کا ہاتھ ہونا قرار دیا جاتا تھا لیکن اب اومنی گروپ کی ملیں بند ہونے کے باوجود صورتحال نہ بدلنے کی وجہ سے صوبائی حکومت بھی مجبور ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہر سال ملیں تاخیر سے چلنے اور نرخ تنازعات کے باعث سندھ میں گنے کی پیداوار میں کمی ہونے لگی ہے۔گزشتہ سیزن میں7 لاکھ ایکڑ سے زائد اراضی پر گنا کاشت ہوا،اس بار زیر کاشت رقبہ20 فیصد کم ہوکر 5لاکھ 62 ہزار ایکڑ اراضی رہ گیا ہے،گزشتہ سیزن کے مقابلے میں نہری پانی کی قلت اور موسمی اثرات بھی اثر انداز ہوئے۔رواں سیزن کے دوران گنے کی پیداوار میں 30 فیصد تک کی کمی کا امکان ہے۔سندھ آبادگار بورڈ کے رہنما عبدالمجید نظامانی نے رابطے پر امت کو بتایا کہ حکومت سندھ کی جانب سے فی من گنے کی امدادی قیمت 182 روپے مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن خوش آئند ہے، اب حکومت فوری طور پر شوگرملیں چلوائے۔ہم مزید 2 سے3 روز دیکھیں گے پھر بھی ملیں نہ چلنے پر اجلاس بلا کر آئندہ کا لائحہ عمل تیار کریں گے۔آبادگاروں کی جانب سے14 دسمبر کو قاضی احمد شہر میں احتجاج کا اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے۔