بحریہ ٹاؤن ملازمین – سرمایہ کاروں کا 6 گھنٹے تک دھرنا

کراچی(اسٹاف رپورٹر )سپریم کورٹ کے احکام پر بحریہ ٹاؤن کیش ان فلو کو اپنے اختیار میں لینے کے حکم نامے کے بعد بحریہ ٹاؤن کے ملک بھر کے45ہزار سے زائد ملازمین کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے۔بحریہ ٹاؤن کے مزدوروں ،ٹھیکیداروں،اسٹیٹ ایجنٹوں نے ہفتہ کو تنخواہوں و بقایا جات کی عدم ادائیگی کیخلاف سپر ہائی وے پر ایم نائن کے دونوں ٹریکس بند کر کے 6گھنٹے تک دھرنا دیا ،جس سے گاڑیوں کی آمد و رفت بند ہو گئی۔شہر کے مختلف مقامات پر بھی مظاہرے ہوئے جن میں بحریہ ٹاؤن میں سرکایہ کاری کرنے والوں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔بحریہ ٹاؤن کا کیش ان فلو عدالتی اختیار میں لئے جانے کے باعث 6ماہ سے تنخواہ، اوور ٹائم کی ادائیگی سے محروم ہزاروں بحریہ ٹاؤن ملازمین نے عدم ادائیگی کے خلاف سپرہائی وے پر احتجاج شروع کر دیا ۔احتجاج کی اطلاع پر بحریہ ٹاؤن کے الاٹیز،سرمایہ کار،ٹھیکیدار ،اسٹیٹ ایجنٹس،اوورسیز پاکستانیوں کے اہل خانہ سپر ہائی وے اور شہر کے مختلف مقامات پر جمع ہونا شروع ہو گئے۔ ڈیفنس میں سب سے زیادہ مظاہرین توحید کمر شل میں جمع ہوئے جن میں اسٹیٹ ایجنٹس و سرمایہ کاروں کی بڑی تعداد شامل تھی۔مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔سیکڑوں کاروں پر مشتمل مظاہرین کا قافلہ کلفٹن سے ہوتے ہوئے سپر ہائی وے روانہ ہوئے ،راستے میں دیگر علاقوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین بھی ان کے ساتھ شامل ہونے لگے۔جبکہ بحریہ ٹاؤن کے ملازمین اور مزدور سیکڑوں بسوں میں سوار کر سہراب گوٹھ سے شروع ہونے والے اس قافلے میں شامل ہوئے جس میں ٹھیکیدار اور ان کے مزدور شامل تھے ۔ہزاروں مظاہرین نے دوپہر ایک بجے سپرہائی وے پر واقع بحریہ ٹاؤن کے قریب ایم نائن کے دونوں ٹریک بند کر کے حیدر آباد اور کراچی کے درمیان گاڑیوں کی آمد و رفت بند کر دی ہے ۔ اس موقع پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں ۔ مظاہرین نے احتجاج کے دوران بند کرو ،بند کرو ،ہم پر ظلم بند کرو ، ہمارا روزگار مت چھینو ، ہمیں بے روزگار مت کرو کے نعرے لگائے ۔مظاہرین کی جانب سے اٹھائے گئے بینرز پر سپریم کورٹ ہزاروں مزدوروں کو بے روزگار ہونے سے بچائے،بحریہ ٹاؤن ٹیکس جنریشن سٹی ہے اسے بند نہ کیا جائے، بحریہ ٹاؤن کے کیس بند کرو تاکہ ہمارا کاروبار چلے، انصاف کے نام پر بے گھر مت کرو ،فنڈز کو بحال کرو ، بحریہ ٹاؤن سے وابستہ ہزاروں تاجروں کا معاشی قتل نامنظور کے نعرے درج تھے ۔مظاہرین میں کئی خواتین بھی شامل تھیں جو اپنی عمر بھر کی جمع پونجی خطرے میں سمجھ کر زار و قطار روتی رہیں۔بحریہ ٹاؤن کے اسٹیٹ ایجنٹس ،سرمایہ کاروں،ملازمین و پلاٹ بک کرانے والوں کا کہنا تھا کہ شہریوں نے بحریہ ٹاؤن میں5 برس میں بکنگ و ماہانہ اقساط کی مد میں 3کھرب کی سرمایہ کاری کی گئی ۔پروجیکٹس پر کام رکنے سے تعمیرات سے منسلک 55صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں اورسیمنٹ ،بلاک،سریا اور لکڑی کے ان گنت کارخانوں میں کام رکنے سے بھی لاکھوں مزدوروں کے بیروزگار ہونے کے خدشات ہیں۔عدالتی فیصلے کے بعد کئی سرمایہ کار اسپتالوں میں داخل کرائے جا چکے ہیں ۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بحریہ ٹاؤن کے اکاؤنٹس سے پیسوں کی ٹرانزیکشنز رکنے سے کراچی میں بحریہ ٹاؤن کے 5ہزار ملازمین کو گزشتہ4مہینوں سے تنخواہیں نہیں ملیں اور ملک بھر میں ادارے کے45ہزار ملازمین متاثر ہوئے ہیں۔ہزاروں ٹھیکیداروں و اسٹیٹ ایجنٹس اربوں روپے پھنسنے کی وجہ سے قرض کے بوجھ تلے دب گئے ہیں۔عدالتی فیصلے سے براہ راست عام شہری متاثر ہو رہے ہیں ۔غریب مزدوروں اور عمر بھر کی جمع پونجی لگانے والے شہریوں کا کیا قصور ہے۔جب لوگوں نے پروجیکٹس کے آغاز پر زندگی بھر کی جمع پونجی لگائی،اس وقت نیب ،کے ڈی اے،ایس بی سی اے اور ملک کے دیگر ادارے کہاں غائب تھے۔کیا تمام ادارے شہریوں کی رقوم ڈوبنے کے منتظر تھے۔ عدالتی فیصلے پر بحریہ ٹاؤن کے پیسوں کا رخ مڑنےسے45ہزار ملازمین کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑے گئے۔ایک لاکھ85 ہزار سے زائد سرمایہ کاروں کی عمر کی جمع پونجی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ فنڈز کی ٹرانزیکشنز رکنے سے ٹھیکیداروں،ریئل اسٹیٹ ایجنٹوں اور ان کے ملازمین کو بقایا جات کی مد میں رقوم نہیں دی جاسکی ہیں ۔سپریم کورٹ کے کیش ان فلو کو اپنے اختیارات میں لینے کے فیصلے کے بعد تاریخ میں پہلی بار بحریہ ٹاؤن کراچی تاریکی میں ڈوبا رہا۔ مظاہرین نے وزیر اعظم اور چیف جسٹس سے اپیل کی کہ متاثرین کی مدد ، پروجیکٹ کی تکمیل اور بجلی، اکاؤنٹس بحالی کے احکامات جاری کئے جائیں تاکہ معمول کے اخراجات ادا کئے جاسکیں۔حکومت سرمایہ کاری کو تحفظ دے۔دوسری جانب بحریہ ٹاؤن کے ملازمین ،مزدوروں ،ٹھیکیداروں اور سرمایہ کاروں کے احتجاج کے باعث ہفتہ کے روز6گھنٹے تک کراچی کا زمینی راستہ ملک بھر سے منتقطع رہا ۔ دونوں ٹریک بند ہونے پردن بھر سپرہائی وے پر حیدر آباد و کراچی کے درمیان گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگی رہیں۔سہراب گوٹھ کے اطراف میں ٹریفک جام رہا۔شام6بجے کے قریب پولیس کی یقین دہانیوں و مذاکرات کے بعد مظاہرین نے احتجاج ختم کر کے گھروں کی واپسی اختیار کی۔ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر نے بتایا کہ احتجاج کے دوران6گھنٹوں تک سپر ہائی وے بلاک رہنے کی وجہ سے ہی وہ خود موقع پر نہیں پہنچ سکے تھے کیونکہ میں بھی چاروں جانب ٹریفک جام میں بری طریقے سے پھنسا ہوا تھا ۔

Comments (0)
Add Comment