اسلام آباد(نمائندہ امت)نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیا کا اخذ کیا ہوا نتیجہ قابل قبول شہادت نہیں ۔ حسن، حسین، مریم نواز اور طارق شفیع کے بیانات نواز شریف کے خلاف استعمال نہ کیے جائیں۔اسلام آبادکی احتسان عدالت نمبر2کے جج محمد ارشدملک کی عدالت میں گذشتہ روز العزیزیہ سٹل مل اور فلیگ شپ ریفرنس میں سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف عدالت میں پیش ہوئے ۔ ان کے وکیل خواجہ حارث نے العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس میں اپنے حتمی دلائل جاری رکھے۔ اس موقع پروکیل صفائی کو مخاطب کرتے ہوئے عدالت کاکہناتھاکہ حسن، حسین ،مریم اور طارق شفیع کی طرف سے پیش کی گئی دستاویزات کو الگ کرلیں تو پیچھے العزیزیہ رہ جاتی ہے ،آپ العزیزیہ اسٹیل مل کے حوالے سے قانونی نکات پر دلائل دیں،آپ کا مقصد مجھے کیس سمجھانا ہے،اس نکتے سے آگے چلیں جو میں سمجھ چکا ہوں،یہ کہنا کہ یہ ہوسکتا ہے ،وہ کردیں ،تو ایسی صورت حال میں کنفیوژن ہوجاتی ہے،آپ ایک بات کریں ، دو دو باتیں نہ کریں، فرض کریں کہ سپریم کورٹ کسی کو کہتا ہے کہ اس کی کمپنی کا پتہ کریں،تحقیق کار یہ پتہ کرے گا کہ ہینسل اسی کمپنی کی ہے جو اس پر نام درج ہے ،دوسری صورت میں تحقیق کار کہے گا کہ ہینسل کسی جعلی کمپنی کی ہے ،یہ کہنا کہ یہ تحقیق کار کی رائے ہے ، تو یہ تو اس نے بتانا تھا،اگر کسی نے جے آئی ٹی میں ایک بیان دے دیا تو وہ متعلقہ تو رہے گا ؟۔ خواجہ حارث کاکہناتھاکہ وہ بیان اس لیے متعلقہ نہیں رہے گا کیونکہ یہ سپریم کورٹ کیلئے تھا اس عدالت کیلئے نہیں ہے،میرا کیس یہ ہے کہ آپ جے آئی ٹی رپورٹ کی بنیاد پر اپنا فیصلہ نہیں دے سکتے ،جو گواہ جے آئی ٹی میں پیش ہوئے وہ اس عدالت کے سامنے نہیں ہیں،واجد ضیاء یہ بیان نہیں دے سکتے تھے کہ طارق شفیع اور شہبازشریف نے دستخط پہچاننے سے انکار کیا ،اس پر عدالت نے کہاکہ کوئی فرد تفتیشی کیسامنے پیش ہوکر کہے کہ یہ دستخط میرے نہیں تو تفتیشی کیا کہے گا ؟شہبازشریف اور طارق شفیع کی جے آئی ٹی میں پیشی تسلیم شدہ ہے ،جس پر وکیل صفائی نے کہاکہ جے آئی ٹی میں طارق شفیع اور جے آئی ٹی نے کیا کہا اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا،قطری شہزادے کا ایک خط جے آئی ٹی کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد موصول ہوا ،واجد ضیاء نے وہ خط بھی پیش کیا ہے۔ جج محمد ارشدملک نے کہاکہ یہ تو وہی بات ہے کہ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں ۔خواجہ حارث نے کہاکہ حسن ،حسین ،مریم اور طارق شفیع کی طرف سے پیش کی گئی دستاویزات کو نوازشریف کیخلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا،یہ تمام عدالت کے سامنے نہیں ہیں اور وضاحت نہیں کرسکتے کہ انہوں نے اس وقت یہ کیوں کہا ،جس پر عدالت نے کہاکہ قطر اور یو اے ای کے درمیان سفر کرنے کیلئے ویزا درکار نہیں ہوتا ؟کیا قطر اور یو اے ای کے درمیان سفر کرنا بھی راولپنڈی سے اسلام آباد آنا جانا ہے ؟اس پر وکیل صفائی کاکہناتھاکہ ایک زمانہ تھا جب زیادہ چیکنگ نہیں ہوتی تھی ،پرانے زمانے میں لوگ امریکہ سے بھی ڈالروں کے بیگ بھر کر لے جاتے تھے،اب تو چیکنگ اتنی سخت ہوگئی ہے کہ پینٹ اور جوتے بھی اترواتے ہیں ،واجد ضیاء کو شواہد کے حصول کیلئے بیرون ملک خط و کتابت کا اختیار تھا ۔ عدالت کاکہناتھاکہ ایم ایل اے کا جواب جے آئی ٹی کی کارروائی کے دوران آیا تھا ،جے آئی ٹی رپورٹ آنے کے بعد حسین نواز نے یو اے ای سے تصدیق شدہ ریکارڈ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی ؟ اس پرخواجہ حارث نے کہاکہ حسین نواز نے ایسا کوئی ریکارڈ حاصل نہیں کیا ، وقت آنے پر سچ سامنے آجائے گا ،1980 کے معاہدے اور مشینری کی منتقلی کا بار ہم پر نہیں ،واجد ضیاء نے یو اے ای حکام کو ایم ایل اے میں غلط معلومات فراہم کیں ،یہ بات بھی مشکوک ہے کہ ایم ایل اے کے ساتھ مشینری منتقلی سے متعلق ایل سی کو منسلک کیا بھی گیا یا نہیں ۔ عدالت نے کہاکہ فرض کریں ہم سے سماعت کی روزانہ کی رپورٹ مانگی جائے ، ایک دن نہ میں حاضر ہوں اور نہ آپ پیش ہوں تو رپورٹ میں کیا لکھیں گے ؟رپورٹ میں یہی لکھا جائے گا نہ کہ فلاں دن کارروائی نہیں ہوئی یو اے ای حکام نے کہہ دیا کہ ہمارے پاس ریکارڈ نہیں اور کیا کہتے ؟ خواجہ حارث نے کہاکہ یو اے ای حکام بتاسکتے تھے کہ کس ریکارڈ کی بنیاد پر جواب دیا گیا ،وقفہ کے دوران عدالت نے نوازشریف کو جانے کی اجازت دے دی ۔ بعدازاں خواجہ حارث نے اپنے دلائل دوبارہ شروع کرتے ہوئے کہاکہ الدار آڈٹ رپورٹ کو بنیاد بنا کر کہا گیا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا 97 فیصد منافع پاکستان منتقل ہوا ،استغاثہ کا کیس ہے کہ جتنے لوگوں کو پیسے آئے وہ نوازشریف سے جڑے ہوئے تھے،الدار رپورٹ قابل قبول شہادت نہیں ،الدار رپورٹ میں موجود انٹریز کافی نہیں ، ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا،کہا گیا کہ نوازشریف نے رقم مریم نواز کو تحفے کے طور پر دی ،مریم نواز اس کیس کی کارروائی میں شریک نہیں ہیں،استغاثہ کا کیس ہے کہ 88فیصد منافع نوازشریف کو منتقل ہوا اس لیے وہ اصل مالک ہیں ،استغاثہ یہ بھی کہتا ہے کہ رقم کا بڑا حصہ تقریبا 70فیصد نوازشریف نے مریم نواز کو تحفے میں دیا ،اس حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ بینفشری مریم نواز ہیں ،حسین نواز کو بے نامی دار ثابت کرنے سے پہلے استغاثہ کو ثابت کرنا تھا کہ نوازشریف ایچ ایم ای کے اصل مالک ہیں،حسین نواز مانتے ہیں کہ انہوں نے والد کو تحفے میں رقم دی،نوازشریف کا بھی یہی موقف ہے کہ انہیں بیٹے نے رقم تحفے میں دی ،جب تحفہ دینے اور لینے والا تسلیم کررہے ہوں تو کوئی اسے چیلنج نہیں کرسکتا ،فنانس ایکسپرٹ کو پیش کرکے تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کچھ خاص ہوا ،ایک طرف سے رقم آرہی ہے دوسری طرف موصول ہورہی ہے ،اس میں کیسی ایکسپرٹی ؟۔ عدالت نے کہاکہ اتنا زور نہ دیں پھر نیب مریم نواز کو بلانے کیلئے عدالت سے درخواست کردے گا۔