اسلام آباد(خبرنگارخصوصی)سابقہ ادوار حکومت میں وزارت خارجہ کی جانب سے بیرون ممالک قائم 16پاکستانی سفارتخانوں کو غیر قانونی ادائیگیاں کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔جس کے سبب قومی خزانےکو ساڑھے 31 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان برداشت کرنا پڑا تفصیلات کے مطابق وزارت خارجہ حکام کی جانب سے سابقہ اداور حکومت میں قواعد وضوابط کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بیرون ممالک میں قائم16 پاکستانی سفارتخانوں کو کراس چیک کی بجائے کیش کی صورت میں ادائیگیاں کرنے میں ملوث پائے گئے ۔’’امت‘‘کو دستیاب دستاویز کے مطابق بیلجیم کے دارالحکومت بروسلز میں قائم پاکستانی سفارت خانے کو ساڑھے 5 ہزار یورو سے زائد ،افغانستان کے شہر مزار شریف میں قائم پاکستانی سفارتخانے کو 88 لاکھ 14 ہزار روپے سے زائد ،چین کے دارالحکومت بیجنگ میں قائم پاکستانی سفارتخانے کو 31 لاکھ 92 ہزار روپے سے زائد ،ترکمانستان کے دارلحکومت اشک آباد میں پاکستانی سفارتخانے کو سوالاکھ امریکی ڈالرز سے زائد ،قطر کے دارالحکومت دوحہ میں قائم پاکستانی سفارتخانےکو 2لاکھ 76 ہزار روپے سے زائد،افغانستان کے دارالحکومت کابل میں قائم پاکستانی سفارتخانے19لاکھ 19 ہزار روپے سے زائد ،کرغزستان کے دارالحکومت بشکیک میں قائم پاکستانی سفارتخانےکو28ہزار 796امریکی ڈالرزاور 7لاکھ روپے سے زائد ،نائیجیریا کے دارالحکومت ابو جا میں قائم پاکستانی سفارتخانےکو2لاکھ 32 ہزار روپے سے زائد ،یوکرائن کے دارالحکومت کیو میں قائم پاکستانی سفارتخانےکو25لاکھ 36ہزار امریکی ڈالرز،آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں قائم پاکستانی سفارتخانےکو 3ہزار 140 یورو ،عمان کے دارالحکومت مسقط میں قائم پاکستانی سفارتخانےکو 7 لاکھ روپے سے زائد ،جرمنی کےدارالحکومت فرانکفرٹ میں قائم پاکستانی سفارتخانےکو 1کروڑ 65 لاکھ 28 ہزار روپے سے زائد ،تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبےمیں قائم پاکستانی سفارتخانےکو 14لاکھ 14 ہزار روپے سے زائد،کاغزستان کےدارالحکومت آستانہ میں قائم پاکستانی سفارتخانےکو5لاکھ 44 ہزار روپےسے زائدکی رقم کیش کی صورت میں ادا کی گئی۔جو مجموعی طور پر 31 کروڑ 59 لاکھ 32 ہزار روپے بنتے ہیں ۔قواعد وضوابط کے مطابق 5ہزار روپے سے زائدکی رقم کیش کی صورت میں ادا نہیں کی جاسکتی ہے ۔وزارت کا موقف ہے کہ مختلف ممالک میں موجودخراب بینکنگ سسٹم کے پیش نظر کراس چیک کی بجائےکیش کی صورت میں کروڑوں روپے کی ادائیگیاں کی گئیں اور وزارت کی جانب سے قومی خزانے سے کروڑوں روپے کی غیر قانونی ادائیگیوں کے معاملے کی تحقیقات کرکے ذمہ داران کا تعین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔