اسلام آباد/واشنگٹن(بیورورپورٹ/مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان کے شدید احتجاج پر امریکا نے یوٹرن لیتے ہوئے مذہبی آزادیوں کی بلیک لسٹ میں شمولیت کے باوجود پاکستان کو استثنیٰ دے دیا ہے ،جس کےبعد معاشی پابندیوں کے بادل چھٹ گئے ہیں، امریکا کی جانب سے پاکستان کو مذہبی آزادی کی پامالی سے متعلق خصوصی تشویش کی فہرست میں شامل کرنے پر سینئر امریکی سفارت کار کو دفتر خارجہ طلب کیا گیا۔ذرائع کے مطابق اس معاملے پر پاکستان کی جانب سے امریکی سفارت کار سے شدید احتجاج کیا گیا ہے اور ایک احتجاجی مراسلہ بھی ان کے حوالے کیا گیا۔ احتجاجی مراسلے میں کہا گیا ہےکہ پاکستان میں اقلیتوں کو آئین کے مطابق تمام تر مذہبی آزادی ہے، امریکا مقبوضہ کشمیر میں مظالم کو کیسے نظرانداز کرسکتا ہے، بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک کو بھی نظر انداز کیا گیا ہے۔سفارتی ذرائع کا کہناہےکہ پاکستان کا امریکی اقدام پر مؤقف ہےکہ پاکستان کو اپنی اقلیتوں سے متعلق کسی سے لیکچر کی ضرورت نہیں ہے۔ذرائع نے بتایا کہ امریکی حکام نے دفتر خارجہ کے حکام کو پاکستان کا احتجاجی مراسلہ اور حقائق کی ترسیل کی یقین دہانی کرائی ہے۔اس سے قبل اس سے قبل بلیک لسٹ میں شامل کرنے پر پاکستان نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے امریکی فیصلہ مسترد کردیا تھا،دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ پاکستان مذہبی آزادی سے متعلق بیرونی اندازوں کو مسترد کرتا ہے، تعصب پر مبنی یہ غیر ضروری رپورٹ لکھنے والوں کی غیرجانبداری پر کئی سوالات اٹھاتی ہے۔بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ایک کثیر المذہبی ملک ہے ،جہاں مختلف مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والے افراد مل جل کر رہتے ہیں۔بیان میں بتایا گیا کہ ہماری کل آبادی کا 4 فیصد حصہ مسیحی، ہندو، بدھ مت اور سکھ مذاہب سے تعلق رکھنے والے شہریوں پر مشتمل ہے۔مذہبی اقلیتوں کے ساتھ برابری کی سطح کا سلوک اور ان کے انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا پاکستان کے آئین کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے ،جبکہ قانون سازی میں ان کی نمائندگی کو یقینی بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں اقلیتوں کے لیے خصوصی نشستیں بھی مختص کی گئی ہیں۔دوسری جانب اقلیتوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کے ازالے کے لیے ایک متحرک اور خودمختار انسانی حقوق کمیشن کام کر رہا ہے ،جبکہ آئین اور قانون کے تحت مذہبی اقلیتوں کے شہریوں کے حقوق کا تحفظ پاکستان کی ہر حکومت کی ترجیحات میں شامل رہا ہے۔دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان انسانی حقوق کے 9 میں سے 7 معاہدوں میں فریق ہے اور بنیادی آزادی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں پر ایک عملدرآمد رپورٹ پیش کررہا ہے۔بیان میں مزید کہا گیا کہ حکومت پاکستان نے اپنے شہریوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے بہترین قانونی اور انتظامی طریقہ کار تشکیل دیا، پاکستان کو اپنے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کسی بھی ملک سے کسی قسم کے مشورے یا ہدایات کی ضرورت نہیں۔بیان میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا کہ دنیا بھر میں انسانی حقوق پر بات کرنے والوں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنی آنکھیں بند رکھی ہیں۔اس کے علاوہ تجویز دی گئی کہ یہ بہترین وقت ہے کہ امریکا میں اسلامو فوبیا میں بے پناہ اضافے کی وجوہات کا غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے۔ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے بھی امریکی رپورٹ کو مکمل طور پر مسترد کیا۔دوسری جانب پاکستان کے شدید ردعمل پر امریکا نے مذہبی آزادیوں کی بلیک لسٹ میں شمولیت کے باوجود پاکستان کو ممکنہ معاشی پابندیوں سے استثنی دے دیا ہے۔ عالمی مذہبی آزادی کے حوالے سے امریکی سفیر سیم براؤن بیک نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاکستان سے متعلق استثنیٰ جاری کردیا ہے، جس کے باعث پاکستان کو باعث تشویش ممالک پر عائد معاشی پابندیوں سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ سیم براؤن بیک کا کہنا تھا کہ پاکستان کو استثنیٰ دینا امریکا کے اہم قومی مفاد میں ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ نے سعودی عرب اور تاجکستان کے لیے بھی استثنیٰ جاری کیا ہے۔ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ امریکی استثنی پانے والے ملکوں پر جرمانہ عائد نہیں کیا جائے گا۔