حمزہ شہباز – انوشہ – پرویز اشرف سمیت 8 بڑی گرفتاریوں کی تیاری

اسلام آباد(رپورٹ:اختر صدیقی)قومی احتساب بیورو نے چیئرمین نیب سےمزید8 بڑی سیاسی شخصیات کو سال نو سے قبل کرنے کی اجازت مانگ لی ہے ۔ ان شخصیات میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف ،حمزہ شہباز، خواجہ آصف، انوشہ رحمان شامل ہیں ۔سیاسی شخصیات گرفتار کرنے کی اجازت دینے سے قبل چیئرمین نیب نے حکام کو مختلف انکوائریز میں شواہد پیش کرنے کا حکم دیدیا ہے ۔احتساب عدالت لاہور نے خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کو 10روز کے ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا ہے ۔ عدالت نے خواجہ برادران کے شریک ملزم شاہد بٹ کے بیان پر شکوک کا اظہار کرتے ہوئے قومی احتساب بیورو کو ہاتھ سے لکھا بیان پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔عدالت نے نیب کے اقدامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ہدایت کی کہ واش رومز میں چٹخنی لگائی جائے اور وہاں کیمرے نصب نہ ہوں ۔با خبر ذرائع نے ’’امت ‘‘کو بتایا کہ نیب نے خواجہ سعدرفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی گرفتاری کے بعد مزیدسیاسی اور اہم شخصیات کی گرفتاریوں کے لیے کمرکس لی ہے۔ اس ضمن میں ہوم ورک مکمل کئے جانے کا امکان ہے،جس کے بعدمعاملہ چیئرمین نیب کو پیش کیا جائے گا۔ نیب کے چیئرمین نے حکام کو کسی بھی ملزم پر بغیر شواہد ہاتھ ڈالنے سے روک دیا ہے ۔حکام کو کہا گیا ہے کہ جس شخصیت کو بھی گرفتار کرنا ہو، پہلے اس کے بارے میں تمام شواہد چیئرمین نیب کو دیے جائیں اور ان کے اطمینان پر پیشرفت کی اجازت دی جائے گی۔سربراہ کی ہدایات پر نیب حکام نے اہم شخصیات کیخلاف شواہد کو ترتیب دینا شروع کر دیا ہے۔ذرائع کے مطابق اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز شریف کی حفاظتی ضمانت ختم کرانے کیلئے نیب متحرک ہو گیا ہے ۔ نیب حمزہ شہباز کیخلاف آمدنی سے زائد اثاثوں کے کیس کی تحقیقات کر رہا ہے۔ حمزہ شہباز نے گرفتاری سے بچنے کے لیے حفاظتی ضمانت کرا رکھی ہے ۔پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف کیخلاف رینٹل پاور کیس میں ساہیوال ملتان رینٹل پروجیکٹ کے منیجر رانا امجد سلطانی گواہ بنے تھے ،جنہوں نے تمام ریکارڈ نیب کو دیدیا ہے۔ جس کی بنیاد پر راجہ پرویز کیخلاف آئندہ ہفتے تک ضمنی ریفرنس دائر کئے جانے کا امکان ہے۔ نواز لیگی رہنما خواجہ آصف کی گرفتاری کا بھی امکان ہے ۔اس حوالے سے نیب نے پی ٹی آئی رہنما عثمان ڈار کی جانب سے خواجہ آصف کی غیر ملکی سرمایہ کاری کے فراہم کردہ ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے ،جس میں سابق وزیر اور ان کی اہلیہ کے غیر ملکی اکاوٴنٹس میں بے نامی ٹرانزیکشنز کی تفصیلات بھی ہیں۔مبینہ طور پر اقامہ و غیر ملکی کمپنی میں ملازمت کی آڑ میں منی لانڈرنگ ہوئی۔ خواجہ آصف پربطور وزیر پانی بجلی خزانے کو نا قابل تلافی نقصان پہنچانے کا بھی الزام ہے۔ سابق آئی ٹی وزیر انوشہ رحمان، سابق چئیرمین پی ٹی اے ڈاکٹر اسماعیل شاہ اور دیگر پر مبینہ طور پر غیر قانونی این جی ایم ایس اے ٹھیکہ دیکر خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کے الزام کی تحقیقات مکمل ہونے والی ہیں ،جن کی بنیاد پر ممکنہ طور پر ریفرنس دائر ہوں گے ۔ناردرن پاور پلانٹ گوجرانوالہ کے افسران کیخلاف بدعنوانی کی شکایت پر تحقیقات،چیف فنانشل آفیسر پنجاب پاور ڈیولپمنٹ کمپنی اکرم نوید وسابق ڈائریکٹر فنانس ایرا، سابق ڈائریکٹر فنانس پی ایچ اے و سابق ڈائریکٹر لوک ورثہ عکسی مفتی اور روبینہ خالد کیخلاف تحقیقات بھی حتمی مراحل میں ہیں اوران کے خلاف بھی کارروائی کا امکان ہے ۔’’امت ‘‘کے رابطے پر نیب کے ترجمان کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کیخلاف مقدمات ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت ہیں ،جبکہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں۔حمزہ شہباز شریف ،انوشہ رحمان اور خواجہ آصف کے خلاف ابھی انکوائری جاری ہے ۔ ادھر لاہور کی احتساب عدالت کے جج نے پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار خواجہ سعد رفیق و سلمان رفیق کو 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔شریک ملزم شاہد بٹ کے بیان پر عدالت نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ ملزم کا ہاتھ سے لکھا ہوا بیان پیش کیا جائے ۔ایسا لگتا ہے کہ بیان نیب نے خود لکھا۔نیب شاہد بٹ کے منہ میں کچھ نہ ڈالیں ،سماعت کے دوران نیب وکیل وارث علی جنجوعہ نے ملزمان کے خلاف الزامات ، شریک ملزمان کے بیانات کی تفصیل سے آگاہ کیا ۔ نیب وکیل نے عدالتی استفسار پر تسلیم کیا کہ خواجہ برادران انکوائری میں شامل ہوتے اور بیان ریکارڈ کراتے رہے ہیں۔متاثرین کے بیانات بھی قلم بند کیے جا چکے ہیں ۔خواجہ برادران کے وکیل امجد پرویز نے اپنے موکلوں کیخلاف کیسز کو سیاسی مقدمات قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ خواجہ برادران طلبی پر 6بار نیب میں پیش ہوئے۔ پرویز مشرف دور میں خواجہ سعد رفیق پر اثاثوں کا کیس بنااور 3 سال بعد نیب نے رپورٹ دی کہ خواجہ سعد رفیق کیخلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔خواجہ برادران کی جائیداد ڈیکلیئرڈ ہے ۔15 سال میں، کوئی ایک دستاویز ایسی سامنے نہیں لائی جاسکی ،جس سے ثابت ہو کہ پیرا گون کے مالک خواجہ برادران ہیں۔ذکر کردہ40 کنال زمین بھی ڈیکلیئرڈ ہے اور اس بنیاد پر جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جاسکتا۔قیصر امین بٹ کو جب لاہور میں احتساب عدالت پیش کیا گیا تو انہوں نے متاثرین کی داد رسی پر آمادگی ظاہر کی تھی ۔جب مسئلہ حل ہو رہا تھا تو قیصر امین بٹ کے جسمانی ریمانڈ اور اس 164 کے بیان کی کیا ضرورت تھی؟۔قیصر امین بٹ کا مجسٹریٹ کے سامنے ریکارڈ کیا گیا بیان چیئرمین نیب کو پسند نہیں آیا، جس کے بعد مجسٹریٹ کے سامنے قیصر امین بٹ کا دوبارہ بیان ریکارڈ کرایا گیا۔اس موقع پر خواجہ سعد رفیق اور نیب پراسیکیوٹر حافظ اسد اللہ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔عدالت میں خواجہ سعد رفیق کی نیب کے وکیل سے تلخ کلامی ہوئی اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب واش روم میں چٹخنی نہیں ہےاور جس سیل میں رکھا گیا ہے ،وہاں کیمرہ لگا ہے ۔ اس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تفتیش کریں ،لیکن غیر فطری عمل نہ کریں۔واش رومز میں کیمرہ نہیں ہونا چاہیے۔

اسلام آباد (نمائندہ امت ؍مانیٹرنگ ڈیسک)قومی اسمبلی میں سعد رفیق اور سلمان رفیق کی گرفتاری اور نیب کے خلاف اپوزیشن نے شورشرابہ کیا ۔احتجاج کے دوران پیپلز پارٹی نے بھی نواز لیگ کا ساتھا دیا اور کہا کہ لگتا ہے کہ قومی اسمبلی کا اگلے اجلاس اڈیالہ جیل میں کرنا پڑے گا۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے پر ریمارکس پر اپوزیشن نے شور شرابہ کیا ۔اس دوران اپوزیشن لیڈر شہباز ایوان سےباہر چلے گئے۔ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے فواد چوہدری کے الفاظ کارروائی سے حذف کرا دیے۔بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے پر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے خواجہ برادران کی گرفتاری کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن کو دبانے کیلئے نیب کو استعمال کیا جا رہا ہے۔چیئرمین نیب نے ارکان پارلیمان و سیاستدانوں کے خلاف بے بنیاد الزامات لگائے، وزیر اعظم عمران خان کے خلاف بھی ہیلی کاپٹر کیس ہے۔اگر قائد حزب اختلاف گرفتار ہو سکتا ہے تو قائد ایوان کو بھی گرفتار کیا جائے، علیم خان، علیمہ خان، پرویز خٹک صاحب، اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہیٰ کو بھی گرفتار کر لیا جائے۔احتساب ہم سے شروع کریں لیکن اپوزیشن کو دبانے کا یہ طریقہ جمہوریت اور پارلیمنٹ کے حق میں نہیں۔آج جو ہو رہا ہے،اس کا کیا جواز ہے۔زلفی بخاری کا نام ای سی ایل میں ہے ،لیکن وزیر اعظم اپنے ساتھ بٹھا کر عمرے پر لے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں اور پنجاب میں اپوزیشن لیڈر مطلوب نہ ہونے پر طیارے سے اتار دیے جاتے ہیں ۔ہم نے چیئرمین نیب کو ان کی سابق کارکردگی دیکھ کر مقرر کیا تھا ۔جو معیار نواز ، شہباز شریف اور سعد رفیق کیلئے رکھا گیا ہے ،اگر وہ حکومت پر لاگو ہوا تو 70 فیصد کابینہ ممبر اندر ہوں گے ، یہ بات سچ ثابت نہ ہو تو ذمہ دار میں ہوں گا۔ نیب جو کر رہا ہے ،وہ احتساب نہیں تباہی کا راستہ ہے۔سابق چیئرمین اوگرا توقیر صادق پر450ارب کا مقدمہ بنا،7 سال گزرنے کے باوجود کچھ نہیں ہوا۔پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے خواجہ سعد رفیق کا فوری پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح سے اپوزیشن ارکان اسمبلی کی گرفتاریاں ہو رہی ہیں ،لگتا ہے قومی اسمبلی کے اگلے اجلاس اڈیالہ جیل میں کرنا پڑیں گے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں بلاول بھٹو زرداری سے اس وقت کے سوالات کیے جا رہے ہیں، جب وہ ایک سال کے تھے۔ حکومت کا مقصد صرف اپوزیشن کو گندا کرنا ہے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے جوابی تقریر میں اپوزیشن پر خوب تیر برسائے اور کہا کہ نواز لیگ والوں کی تربیت میں مسئلہ ہے۔ ضیا الحق نے ان کی پارٹی بنائی اور تربیت کی۔ اس جملے پر اپوزیشن ارکان اسمبلی برہم ہو گئے ،جس پر ڈپٹی اسپیکر نے نازیبا جملے حذف کرا دیے۔فواد چوہدری نے نواز لیگی ترجمان مریم اورنگزیب کیخلاف نیب تحقیقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے بھی ابھی جانا ہے ،حوصلہ رکھیں، ان کو اپنے کرتوتوں کا اچھی طرح پتا ہے، حکومت نیب کی کارروائی نہیں روکے گی۔ داغداروں سے لوٹے گئے پیسے واپس لیں گے ،اگر ایسا نہ کر سکے تو تحریک انصاف کو حکومت کرنے کا حق نہیں ہوگا ۔ساری اپوزیشن کو اپنا خطرہ ہے اور وہ سب اپنے کرتوت جانتے ہی۔اپوزیشن چاہتی ہے حکومت نیب کی جاری تحقیقات میں رکاوٹ ڈالے مگر ایسا نہیں ہوگا۔یہ وہ مقدمات ہیں ،جو نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی دور میں بنے۔ اپوزیشن کو لگتا ہے اسمبلی میں آنے سے انہیں کرپشن کا لائسنس مل گیا ہے ۔ کسی کو بھی سعد رفیق یا شہباز شریف نہیں اپنی باری کا دکھ ہے۔وزیرمملکت مواصلات مراد سعید نے دعویٰ کیا کہ نواز لیگ کے 7 ارکان نے این آر او مانگا ۔ نواز لیگی دور کے پروجیکٹس سے 46 کروڑ کی ریکوری کر لی ۔اپوزیشن کی جانب سے نام سامنے لانے کے مطالبے پر مراد سعید نے کہا کہ سب سے پہلے رابطہ کرنے والا اس وقت بھی قومی اسمبلی میں ہے۔انہوں نے علامتی قرار داد پیش کی کہ قوم کے پیسے لوٹنے والوں کے اثاثے ڈی چوک پر نیلام کیے جائیں اور لٹیروں کو اسی جگہ پھانسی دی جائے۔اس موقع پر اپوزیشن نے کہا کہ علیمہ خان سے احتساب شروع کیا جائے ،جس پر مراد سعید نے حامی بھری اور کہا کہ بالکل شروع کیا جائے۔

Comments (0)
Add Comment