فضائی کمپنیوں کے جعلی ڈگریوں والے 57 ملازمین کی فہرست تیار

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی )سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات میں پی آئی اے، ائیر بلیو، شاہین اور سرین ائیر لائنز کے 57کیبن اور کاکپٹ کریو کی تعلیمی اسناد جعلی نکلیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی نے جعلی تعلیمی اسناد رکھنے والے قومی و نجی ائیرلائنز کے کاکپٹ کریو اور کیبن کریو کی فہرست نے سپریم کورٹ میں جمع کرادی۔ رپورٹ میں 57 کیبن اور کاکپٹ کریو میں سے 46 پی ائی اے 6 سرین 2 شاہین اور 3ائیر بلیو شامل ہیں ،جن کی تعلیمی اسناد جعلی نکلیں۔ رپورٹ کے مطابق قومی و نجی ایئرلائنز کے کاکپٹ کریو اور کیبن کریو کی تعلیمی اسناد کی تصدیق کروائی گئی ،تاہم پی آئی اے، ایئربلیو، سرین اور شاہین ایئر کے فضائی عملے کی تعلیمی اسناد جعلی ہیں۔جعلی تعلیمی اسناد پر نوکریاں لینے والوں میں ایئربلو کاکپٹ کریو کے جاوید ملک اور سید عبداللہ اصغر شامل ہیں ،جب کہ قومی ائیر لائن پی ائی اے کے کاکپٹ کریو کے سرمد رضوی، صابر رحمان اور تراب بخاری کی تعلیمی اسناد جعلی نکلیں۔پی آئی اے کی 43 ائیر ہوسٹس اور کیبن کریو کی تعلیمی اسناد جعلی نکلیں، قومی ائیرلائن پی ائی اے میں جعلی ڈگریوں پر ایئرہوسٹسز بھرتی ہونے والوں میں حرا اختر، غزالہ امبر، شہلا ناصر، وحید حیدر، رضوانہ، عذرا بانو ، رخسانہ فقیر، فاخرہ رحمت، مجاہد ملک،عائشہ خان ، غلام حیدر، الماس اکبر، محمد انور، محمد عدنان، شائستہ اسحاق، صائمہ پروین، شاہدہ پروین، شازیہ مقصود، ریحان بٹ، رخسانہ یاسمین، عظمی بختاور، شازیہ آفریدی، آرزو ، امان اللہ، فریدہ بشیر، عشرت پروین، عطیہ افتخار، حنا دین انور مرزا، ریحان بٹ، آرزو فرح خان، قاسم رضا، مجید عالم، انور صادق، شازیہ، نوید ملک، مرزا حماد، مرزا عبدالروف، تھریسا کارڈوزہ اور امان اللہ جعلی اسناد پر قومی ائرلائن میں تعینات ہیں۔شاہین ایئر کاکپٹ کریو محمد رضوان اور کاشف محمود کو تعلیمی اسناد جعلی ثابت ہونے پر طیارہ اڑانے سے روک دیا گیا ،جب کہ سرین ایئر کیبن کریو کی 6 تعلیمی اسناد جعلی نکلیں، ان میں سرین ایئر کی اقرا افروز، مہوش صدیق، آمنہ اورنگ زیب، مہوش ناز، تحریم بتول اور مریم حسیب شامل ہیں۔یاد رہے سپریم کورٹ میں پائلٹس اورکیبن کروکی ڈگریوں کی تصدیق سے متعلق کیس پی آئی اے کے 12 پائلٹس اور 73 کیبن کروکی ڈگریاں جعلی نکلنے کا انکشاف ہوا تھا ۔دریں اثنا سپریم کورٹ نے ٹوئن ٹاورز گرینڈ حیات کی غیر قانونی عمارت کی مالک کمپنی کو حکم دیا ہے کہ وہ لیز کی رقم ادائیگی کا شیڈول ایک ہفتے میں جمع کرا ئے اور وفاقی ترقیاتی ادارہ سی ڈی اے اور وفاقی حکومت سے موٴقف طلب کیاہے۔ عدالت نے معاملے کوکابینہ کے روبروبھی پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔چیف جسٹس ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئن ٹاورزگرینڈ حیات کیس کے بارے میں پروگرام کرنے پر اینکر روٴف کلاسرا، عامر متین اور محمد مالک کو طلب کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ زیر التوا مقدمات کے حوالے سے عدالت فیصلے دے چکی ہے، میڈیا کو تبصرہ کرتے ہوئے اختیاط کرنی چاہیے، محمد مالک اور عامر متین نے گرینڈ حیات کیس میں غیر ضروری گفتگو کی، پندرہ ارب والی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ٹی وی پروگرام میں معاملے کو اینگل دینے کی کوشش کی۔ کیا سمجھتے ہیں وہ کہ عدالتوں میں کیا ہو رہا ہے، وہ تصفیے کرانے کا متبادل نظام بنا لیں ،اگر انہوں نے ٹی وی پر بیٹھ کر فیصلے کرنے ہیں۔دو اینکرز روٴف کلاسرا اور عامر متین عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ زیرسماعت مقدمے پر بات کیوں کی؟۔ کیا عدالتوں میں بیٹھے ججوں کے ذہن کو متاثر کرنا چاہتے ہیں۔ روٴف کلاسرا نے کہا کہ آئندہ محتاط رہیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئندہ احتیاط کریں اور ارشد شریف پر دیا گیا سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی پڑھ لیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کلاسرا اور عامر متین کی حد تک معاملہ ختم کرتے ہیں، محمد مالک آئندہ سماعت پر آئیں۔گرینڈ حیات ٹاورز بنانے والی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ عدالت نے پندرہ ارب مزید جمع کروانے پر سوچنے کیلئے کہا تھا، ہم نے اس پر جواب جمع کرایا ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ ابھی تک آپ نے صرف ایک ارب روپیہ جمع کرایا ہے؟ وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ ایک ارب 23 کروڑ روپے لیز کی اصل رقم میں سے ادا کر چکے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عجیب لگتا ہے کہ اب تک صرف اتنی رقم دی ہے، اگر درست ریکارڈ سامنے ہو تو آٹھ دس ارب کے تو صرف فلیٹس ہی بیچ چکے ہیں۔ یہ تو ایسا ہے جیسے مفت میں ہی سب لے گئے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابتدائی لیز کی رقم 4 ارب 90 کروڑ تھی، اب 15 ارب مزید جمع کرلیں تو کل 19 ارب 90 کروڑ بنتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ کمپنی نے رقم ادائیگی کا جو شیڈول فراہم کیا ہے ،اس کے مطابق تو رقم کی قسطیں 2038 تک پوری ہوں گی، اسی کمپنی نے یہ عمارت ضرور بنانی ہے؟ کسی اور کو دے دیتے ہیں، نئی بڈنگ ہو جائے گی، جس زمین کی قیمت نہیں دے سکتے ،اس کو کیوں بنانے دیں؟ ایک ارب روپے تو مونگ پھلی کے دانے ہیں۔ گرینڈ حیات کے وکیل نے عدالت سے کہا کہ ہم بقیہ 18 ارب روپے کی ادائیگی کا نیا شیڈول دے دیتے ہیں۔سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ 15 ارب پر بھی اس کمپنی کو دینے کیلئے تیار نہیں، یہ معاہدہ قانون کے خلاف ہوا تھا اور اسی وجہ سے ہم نے اپنے افسران کے خلاف کارروائی کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ معاہدے کو کابینہ کے سامنے رکھیں اگر وفاقی حکومت کوئی فیصلہ کرتی ہے تو اس کو اختیار ہے۔عدالت نے حکم دیا کہ گرینڈ حیات بنانے والی کمپنی ادائیگیوں کا نیا شیڈول جمع کرائے جس کا سی ڈی اے اور وفاقی کابینہ جائزہ لے۔ اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو سپریم کورٹ 28 دسمبر کو اس مقدمے کی سماعت کرے گی۔

Comments (0)
Add Comment