اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) سپریم کورٹ نے بڑے نجی اسکولوں کو فیس میں 20 فیصد کمی کا حکم دیتے ہوئے سالانہ 8 فیصد سے زیادہ اضافہ پر پابندی لگادی اور 21 بڑے اسکولوں کے اکاؤنٹس تحویل میں لینے اور کھاتے ضبط کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ نجی اسکولز کو غیر ضروری منافع نہیں کمانے دیں گے۔سپریم کورٹ نے تمام بڑے اسکولز کو بنیادی فیس میں 20 فیصد کمی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ نجی اسکولز فیس میں سالانہ 8 فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں کرسکیں گے تاہم اسکولز کو ازخود پانچ فیصد سالانہ فیس بڑھانے کا اختیار ہوگا اور پانچ فیصد سے زائد اضافے کیلئے ریگولیٹری اتھارٹی کی اجازت درکار ہوگی، تمام اسکولز گرمیوں کی چھٹیوں کی آدھی فیس واپس کریں یا ایڈجسٹ کریں۔عدالت نے ایف بی آر کو 21 بڑے اسکولز کے ٹیکس ریکارڈ کی مکمل چھان بین کا حکم دیا اور ایف آئی اے کو فوری طور پر ان اسکولوں کے اکاؤنٹس تحویل میں لینے اور کمپیوٹر، اکاؤنٹنگ رجسٹر اور کھاتے ضبط کرنے کی ہدایت کی۔ عدالت نے قرار دیا کہ فیس کے معاملے پر اگر بچے کو نکالا گیا یا اسکول بند کیا تو اس کی ذمہ داری مالکان پر ہوگی۔قبل ازیں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سیکرٹری لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ فیس میں سالانہ اضافے پر اتفاق نہیں ہوسکا، نجی اسکول صرف 8 فیصد فیس میں کمی پر تیار ہیں۔چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے کہا کہ فیس میں آٹھ فیصد کمی کی تجویز ناقابل قبول ہے، میں نے تو فیس میں 20 فیصد کمی کا حکم دیا تھا، ایک اسکول کا ڈائریکٹر 85 لاکھ روپے تنخواہ لے رہا ہے، لاہور گرامر اسکول کے ڈائریکٹر کا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں، کوئی خدا کا خوف بھی ہوتا ہے، بندا روزانہ نوٹ پھاڑنا شروع کرے، ایک ماہ میں 85 لاکھ پھاڑ بھی نہیں سکتا، اتنی بڑی تنخواہ سی ای او اور ڈائریکٹر لے رہے ہیں، کیا ان لوگوں نے یورینیم کی کان لگا رکھی ہے۔آڈیٹر جنرل حکام نے کہا کہ نجی اسکول نے پانچ افراد کو 512 ملین تنخواہوں کی مد میں ادا کئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ نجی اسکولز کو غیر ضروری منافع نہیں کمانے دیں گے، سرکاری اسکول اس قابل نہیں کہ والدین بچے بھجوا سکیں، مالکان ایک اسکول سے 250 اسکولوں کے مالک بن گئے۔طلبہ کے والدین کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہر سال فیس میں 10 سے 20 فیصد اضافہ کرنے والے اسکول 1 بار 20 فیصد کمی پر تیار نہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عدالت کو بنیادی فیس کے حوالے سے قانون بنانا پڑے گا۔چیف جسٹس نے ایف آئی اے اور ایف بی آر کے سربراہان کو فوری طور پر عدالت میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ اسکولوں کا فرانزک آڈٹ کرائیں گے، مالکان ایک کمرہ کے اسکول سے اب صنعت کار بن گئے ہیں۔عدالت نے ایف بی آر کو لاہور گرائمر اسکول کے اکاؤنٹس منجمد کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور کو ابھی فون پر آگاہ کیا جائے، اکاؤنٹس کا مکمل ریکارڈ اور کمپیوٹر بھی تحویل میں لے لیے جائیں، لاہور گرائمر اسکول کے ڈائریکٹر کا پانچ سالہ ٹیکس ریکارڈ بھی پیش کیا جائے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تعلیمی ادارے کارپوریٹ ٹیکس ادا نہیں کرتے اور صرف اِنکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے نجی اسکول کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں کی کمی پوری کررہے ہیں، دراصل آپ نے اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عبوری حکم دیا کہ ملک بھر کے ایسے نجی اسکول جو 5 ہزار روپے سے زائد فیس وصول کرتے ہیں وہ اپنی فیسوں میں 20 فیصد تک کمی کریں گے جب کہ 5 ہزار یا اس سے کم فیس وصول کرنے والے اسکولوں پر عدالتی فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔عدالت نے مزید حکم دیا کہ 5 ہزار روپے سے زائد فیس لینے والے نجی اسکول سالانہ 5 فیصد سے زیادہ فیسوں میں اضافہ نہیں کریں گے اور اگر اس سے زیادہ اضافہ کرنا ہوگا تو ریگولیٹری باڈی سے منظوری لینا ہوگا اور وہ بھی 8 فیصد سے زیادہ اضافہ نہیں ہوگا۔سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ ایسے نجی اسکول گرمیوں کی فیسوں کا 50 فیصد والدین کو ادا کریں یا اس رقم کو اسکول کی فیس میں ایڈجسٹ کریں۔عدالت نے ایف بی آر کو نجی اسکولز مالکان اور ڈائریکٹرز کے انکم ٹیکس گوشواروں کی چھان بین کا بھی حکم دے دیا۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 26 دسمبر تک ملتوی کردی۔