کابل/پشاور؍اسلام آباد(امت نیوز؍ مانیٹرنگ ڈیسک؍خبرایجنسیاں )افغانستان میں امریکی طیاروں نے بمباری کرکے صوبہ کنڑ کے ضلع شیگل میں 4دیہات تباہ کردیئے ،جس کے نتیجے میں 65افراد شہید ہوگئے ہیں۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق شہید ہونے والوں میں6 خواتین اور7بچے بھی شامل ہیں۔صوبائی حکومت نے فضائی حملے کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حملے میں 20 جنگجو مارے گئے اور صرف 15 عام شہری زخمی ہوئے ہیں۔طالبان کا کہنا ہے کہ بیگناہ دیہاتیوں کو شہید کیا گیا۔بگرام میں جھڑپ میں ایک امریکی فوجی ہلاک ہو گیا۔ دوسری جانب پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان مذاکرات آج کابل میں ہونگے ،جبکہ وزیراعظم عمران خان نے آئندہ ہفتے طالبان اورامریکہ میں بات چیت کی پیش گوئی کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق صوبہ کنڑ کے ضلع شیگل کے چوگام، برغنڈو اور سوکنو کے علاقوں میں امریکی فوج نے چھاپے مارے اور لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنےکا حکم دیا ،بعد ازاں امریکی طیاروں نے بمباری کردی ،جس کے نتیجے میں 4 گاؤں مکمل طور پر تباہ اور خواتین اور بچوں سمیت 65 افراد شہید ہوگئے۔طالبان کے مطابق جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب وحشیانہ کارروائی میں بیگناہ دیہاتیوں کو نشانہ بنایا گیا ،جبکہ صوبہ پکتیا کے ضلع سیدکرم کے کاریز کے علاقے میں بھی امریکی بمباری کے نتیجے میں 2 افراد شہید ہوئے۔ کنڑ کی صوبائی حکومت کے ترجمان عبدالغنی نے بمباری کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حملے میں 20 طالبان مارے گئے اور خواتین اور بچوں سمیت 15 عام شہری زخمی ہوئے ہیں۔مقامی پشتو ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ واقعے میں 6 خواتین اور 7 بچے بھی شہید ہوئے ہیں ،جبکہ گھر ملیا میٹ ہو گئے۔دریں اثنا بگرام میں جھڑپ میں ایک امریکی فوجی ماراگیا ،جس کی ہلاکت کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ امریکی فوجی نیٹو ریزولوٹ سپورٹ مشن کا حصہ تھا ۔نیٹو فوج کے ترجمان کے مطابق ہلاک ہونے والے امریکی فوجی کی شناخت سے متعلق تفصیل جلد جاری کی جائے گی۔دوسری جانب ایک دستاویز سامنے آئی ہے ،جس میں امریکی میجر کے ہاتھوں 2010 میں ایک افغان شہری کی ہلاکت کا انکشاف ہوا ہے۔ دستاویز کے مطابق امریکی فوج کے میجر میتھیو گولیسٹن نے یہ تسلیم کیا کہ اس نے 22فروری 2010 کو افغانستان کے علاقے مجرا میں ایک افغان شہری کو فائرنگ کرکے قتل کردیا ،جس پر اسے دیئے گئے ملٹری ایوارڈز واپس لے لئے گئے ،تاہم ٹھوس ثبوت کی عدم دستیابی کے باعث امریکی میجر کیخلاف باقاعدہ کیس نہیں چلایا گیا۔ علاوہ ازیں سہ فریقی مذاکرات (آج )ہفتہ کو وزرائے خارجہ سطح پر افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ہونگے ،جس میں پاکستان کے جانب سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی شرکت کریں گے، ان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں دیر پا امن کا حل تلاش کرنا ہے ۔ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستانی وفدمیں سیاسی،سول وعسکری حکام شریک ہوں گے، مذاکرات کےپہلےدورمیں افغانستان کی سیاسی صورتحال پربات چیت ہوگی اور افغان طالبان سےمفاہمتی عمل سےمتعلق بھی گفتگوکی جائے گی، مذاکرات کےدوسرےدورمیں خطےمیں تعاون اورتیسرےدورمیں سیکورٹی تعاون پربات ہوگی،تمام وزرائےخارجہ کی افغان صدرسےملاقات بھی ہوگی۔سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اور چین مشترکہ طورپرچینی قونصل خانےپرحملےکامعاملہ اٹھائیں گے ،جبکہ افغان اوربھارتی خفیہ ایجنسیوں کےگٹھ جوڑپربات چیت ہونےکا بھی امکان ہے۔ اس سہہ فریقی بات چیت سے ایک روز قبل وزیراعظم عمران خان نے پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے امریکہ اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے مذاکرات آئندہ ہفتے شروع ہوں گے۔ جبکہ افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان سے امن معاہدہ پس پردہ اور عوام کی مرضی کے برخلاف نہ کیا جائے۔ ہرات میں مختلف طبقہ فکر کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان سے امن معاہدے کی افغان پارلیمنٹ اور عوام سے منظوری لی جائےگی ۔ افغان خواتین کی تقدیر پر امن معاہدے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ عوام کے ووٹ کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ انتخابات کی راہ ہموار کرنے کیلئے ہرممکن اقدامات کئے جائیں گے ۔سینئر افغان صدارتی مشیرمحمد عمر داودزئی نے کہا کہ طالبان سے امن بات چیت کے مثبت نتائج نکلیں گے۔ کابل میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عنقریب ملک میں امن لوٹے گا۔ ہم ایسا مستقل امن چاہتے ہیں ،جس سے ملکی اتحاد مستحکم ہو۔ انہوں نے کہا کہ مصالحتی عمل افغانستان کے آئین کے فریم ورک کے تحت ہونا چاہیئے۔
٭٭٭٭٭