گیس بحران سے کراچی کی 40 فیصد فیکٹریوں میں پیداویر بند

کراچی(رپورٹ: نواز بھٹو) گیس کی بندش سے کراچی کی 40 فیصد سے زائد فیکٹریوں میں پیداواربند ہونے سے برآمدات کی مد میں اربوں کے نقصان کا خدشہ ہے۔ ہزاروں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑنے لگے۔7 ہزار بسیں کھڑی ہو جانے سے 50 ہزار سے زائد افراد بے روزگار اور لاکھوں شہری شدید مشکلات کا شکار ہو گئے ہیں۔ سی این جی اسٹیشنز اور کیپٹو پاور انڈسٹری کو گیس کی فراہمی کے لئے تین ماہ تک لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ ےگا۔ صرف 50 فیصد گیس فراہم کی جا سکتی ہے۔وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل نے فروری تک بحران برقرار رکھنے کا عندیہ دے دیا ہے۔وفاقی وزیر اور ایم ڈی سوئی گیس سے گورنر ہاؤس میں کراچی کے صنعتکاروں کی ملاقات میں کل ہفتے سے گیس فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ، جبکہ سی این جی اسٹیشنز بھی آج کھولے جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل غلام سرور خان کراچی پہنچے اور گورنر ہاؤس میں صنعتکاروں کے وفد سے ملاقات کی ۔ اس موقع پر ایم ڈی سوئی سدرن گیس بھی موجود تھے۔ صنعتکاروں کے وفد نے وفاقی وزیر کو بتایا کہ گیس کی بندش سے صنعتی سرگرمیاں مانند پڑ گئی ہیں ، جس سے ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہو رہی ہے اور ہزاروں مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا گرمیوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ، سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ اور ساتھ میں پانی کے بحران کی صورتحال میں کراچی میں صنعتیں چلانا دشورا ہوتا جا رہا ہے۔وفاقی وزیر نے صنعتکاروں کو بتایا کہ دسمبر اور جنوری میں گیس کا شدید بحران رہے گا ، کیوں کہ بلوچستان کو سخت سردی کے باعث گیس کی فراہمی لازمی ہے ،جبکہ پنجاب کی گھریلو سپلائی بھی بند نہیں کی جا سکتی، بلوچستان کو گیس براہ راست سندھ سے فراہم کی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مارچ سے گیس کی مکمل فراہمی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ صعنتکاروں نے کہا کہ کراچی کی وہ صنعتیں جو مکمل طور پر گیس پر چلتی ہیں تباہ ہو جائیں گی ، جس پر وفاقی وزیر اور ایم ڈی سوئی گیس نے کیپٹو پاور انڈسٹری کو 50 فیصد گیس کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ کیپٹو پاور انڈسٹری کے مالکان ایم ڈی سوئی گیس سے مل کر گیس کی فراہمی کا شیڈول طے کر لیں۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ 2026 تک گیس کے ذخائر ختم ہو جائیں گے ۔اس لئے ہمیں متبادل وسائل کے استعمال پر غور کرنا ہوگا۔ ‘‘ امت ’’ سے بات چیت کرتے ہوئے کورنگی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر دانش خان نے کہا ہے کہ گورنر ہاؤس میں وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل غلام سرور اور ایم ڈی سوئی گیس سے طویل مذاکرات ہوئے ہیں۔ کل سوئی گیس حکام سے مذاکرات ہوں گے جس میں گیس کی فراہمی کا فارمولہ طے کیا جا ئے گا ۔ کیپٹو پاور انڈسٹری کو گیس کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے اقدامات کئے جائیں گے اور ان سے معاہدہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ گیس کی بندش سے براہ راست 40 فیصد تک صنعتی یونٹ متاثر ہوئے ہیں۔ دوسری جانب کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے چیئرمین ارشاد بخاری نے کہا کہ گیس کے بحران کی وجہ سے کراچی میں 7 ہزار بسیں کھڑی کر دی گئی ہیں جن میں سے 3 ہزار کوچز، 2 ہزار بسیں اور 3 منی بسیں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تناسب کی بات کی جائے تو 95 فیصد بسیں گیس کے بحران کی وجہ سے بند کر دی گئی ہیں شہری بری طرح متاثر ہو رہے ہیں ، لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے عملی اقدامات کرنا تو دور کی بات ہے ۔ بات کرنا تک پسند نہیں کر رہی۔ انہوں نے کہا کہ سوئی گیس حکام خاموش ہیں اور سندھ حکومت خود احتجاج کرنے پر مجبور ہے۔ بسیں کھڑی ہونے سے براہ راست 50 ہزار سے زائد افراد کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے کر دئیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر کراچی ایسوسی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر محمد بابر خان نے کہا کہ گیس کی بندش سے فیڈرل بی ایریا میں 18 سو کارخانوں کو تالے لگا دئیے گئے ہیں جس کی وجہ سے سب سے زیادہ ایکسپورٹ انڈسٹری متاثر ہوئی ہے۔ لانڈھی ایسو سی ایشن آف ٹریڈ اینڈ انڈسٹری کے صدر اسلام الدین ظفر گیس کی بندش سے کاٹی، لاٹی بکاٹی بری طرح متاثر ہوئے ہیں ۔ یہاں تک کہ لانڈھی میں موجود سب سے بڑی موٹر کمپنی کو بند کر دیا گیا ہے ۔ مزید 300 صنعتی یونٹ بند پڑے ہیں ۔ انہوں نے کہا لانڈھی میں سوئی گیس حکام پولیس کے ساتھ آ کر میٹروں کو تالے لگا کر چلے گئے ہیں ۔نارتھ کراچی انڈسٹریل ڈویلپمنٹ منیجمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر صادق محمد نے کہا کہ گیس کی بندش سے 60 سے 70 کارخانے براہ راست متاثر ہوئے ہیں ۔ امید ہے کہ آئندہ چند روز میں صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ ایف آئی ٹی ای کے ڈویلپمنٹ منیجمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ریحان ذیشان نے کہا کہ صنعتوں کی بندش سے ہزاروں ورکر براہ راست متاثر ہوئے ہیں ۔ گیس کی بندش کے لئے فنی خرابی کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے ۔ گیس کی بندش سے برآمدات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں اس عمل کو نہ روکا گیا تو صعنتیں بیٹھ جائیں گی اور سنگین بحران نے جنم لیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment