ابوظہبی۔پشاور(خبرایجنسیاں ۔مانیٹرنگ ڈیسک)امریکہ اور طالبان میں امن مذاکرات جاری رکھنے پراتفاق کرلیا گیا ہے۔ پاکستان کی معاونت سے متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں مذاکرات کاپہلادورختم ہوگیا جس میں طالبان سمیت فریقین نے مذاکراتی عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ اعلامیہ کے مطابق مذاکرات میں شریک طالبان نمائندے اپنی شوریٰ سے بات کرکے دوبارہ زلمےخلیل زاد سے ملاقات کریں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ زلمےخلیل زاد نے مذاکرات کی پیش رفت سے افغان حکام کو آگاہ کردیا ہے۔ ابوظہبی میں ہونے والے مذاکراتی عمل میں عباس استنکزئی کی سربراہی میں افغان طالبان کے وفد، اماراتی اور سعودی حکام نے بھی حصہ لیا تاہم افغان حکومت کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا۔ذرائع کے مطابق فریقین کے درمیان 17 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے لیے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ امریکی اور نیٹو فورسز کی افغانستان سے مرحلہ وار واپسی اور اس کے بعد افغانستان کے نظام حکومت اور سیکورٹی صورتحال پر گفتگو ہوئی ۔اس ضمن میں طالبان کاکہناتھاکہ کابل انتظامیہ نے چند ذرائع ابلاغ کے ذریعے دعویٰ کیا کہ اس اجلاس میں اس کے نمائندے بھی امارت اسلامیہ کے نمائندوں سے ملاقات کریں گے،اس دعوے کی کوئی حقیقت نہیں ،ہم اس پروپیگنڈے کی پرزور الفاظ میں تردید کرتے ہیں۔ کابل انتظامیہ کے افراد سے ملاقات کا کوئی پلان ہے اور نہ اس اجلاس میں کابل انتظامیہ کے نمائندے موجود ہیں۔ اس حوالے سے جو افواہیں سنی جارہی ہیں، صرف اور صرف پروپیگنڈہ ہے۔ ذبیح اللہ مجاہد نے طالبان کی شرکت کی تصدیق کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ مذاکرات میں سعودی عرب، پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے حکام نے حصہ لیا۔دریں اثنازلمے خلیل زاد نے اس ملاقات سے پہلے متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ عبداللہ بن زید سے بھی ملاقات کی ۔یہ بطور نمائندۂ خصوصی تقرری کے بعد ان کا خطے کے تیسرا دورہ ہے جس میں انھوں نے افغان طالبان کے نمائندوں کے علاوہ افغانستان، روس، پاکستان، ترکمانستان اور آذربائیجان کے حکام سے بھی ملاقات کی اور افغانستان میں قیامِ امن کے بارے میں بات کی ہے۔یہ زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے نمائندوں کے درمیان کم از کم تیسری ملاقات ہے۔ اس سے قبل یہ قطر میں کم از کم دو مرتبہ مل چکے ہیں۔ افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے امریکا طالبان مذاکرات کرانا افغان امن عمل میں پاکستان کا عملی قدم ہے، پاکستانی تعاون فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔دوسری جانب افغانستان میں ترجمان امریکی سفارتخانے کا امریکی ریڈیو سروس وائس آف امریکا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ امریکا، پاکستانی حکومت کی طرف سے تعاون بڑھانے کے کسی بھی اقدام بشمول طالبان، افغان حکومت اور دیگر افغانوں کے درمیان مذاکرات کا خیر مقدم کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے طالبان سمیت دیگر فریقین سے ملاقاتیں کی ہیں اور افغان مسئلے کے حل کے لیے وہ یہ ملاقاتیں جاری رکھیں گے۔اس بارےمیں سینئر تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے افغانستان کی اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اپنے وفد بنا لیے ہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ طالبان اور امریکہ کے مذاکرات میں ابھی کسی بڑے بریک تھرو کی توقع نہیں ہے، امریکہ کو فی الحال کوئی بڑی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ افغانستان کی اپوزیشن جماعتوں نے اپنے اپنے وفد بنا لیے ہیں جو طالبان سے بات کریں گے۔انہوں نے کہا کہ روس بھی افغانستان میں امن دیکھنا چاہتا ہے ،پاکستان اور افغانستان کو آپس کے تعلقات بہتر کرنے ہوں گے ۔ادھروزارت خارجہ پاکستان کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل نے امن مذاکرات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادری اور دیگر متعلقہ ممالک کے ساتھ پاکستان بھی افغانستان میں دیرپا امن کا خواہاں ہے۔ امن مذاکرات سے افغانستان اور خطے میں امن کی فضا سازگار ہوگی۔انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ’عالمی برادری اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ہمراہ پاکستان بھی افغانستان میں امن اور مفاہمت کے لیے پرعزم ہے۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات میں ہونے والی بات چیت سے ’افغانستان میں خونریزی کا خاتمہ ہو گا اور خطے میں امن آئے گا۔
پشاور(رپورٹ:محمد قاسم)امریکی ڈرون حملے اور چھاپہ مارکارروائی میں وسطی افغانستان کے چھ معروف مشران اورایک معمر شخص شہید ہوگیا۔اسی دوران مرکزی حکومت کے ساتھ اختلافات بڑھنے پر میدان وردگ کے گورنر طالبان سے جا ملے اورفوج کوجنگجوؤں کیخلاف کارروائیوں سے روک دیا ہے۔جب کہ صوبہ پکتیا میں افغان فوجوں کی گولہ باری میں ایک خاتون سمیت دو بچے شہید ہو گئے۔ دوسرے طرف طالبان کے حملوں میں 19 افغان فوجی مارے گئے امت کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق افغانستان کے وسطی صوبہ لوگر میں گزشتہ روز چرخ کے ضلع کے علاقے میں ایک جرگے میں شرکت کر کے آنے والے وسطی افغانستان کے علاقوں تعلق رکھنے چھ اہم قبائلی مشران کی گاڑی کو امریکی ڈرون طیارے نے نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں گاڑی مکمل طور پر تباہ ہو گئی اور تمام مشران ڈرائیور سمیت شہید ہو گئے ۔ذرائع کے مطابق شہید ہونے والے مشران میں حاجی عبد المبین ،حاجی جمال الدین ،حاجی محمد اللہ ،حاجی حمد اللہ ،حاجی دوا جان اور حاجی محمد ا جان شامل ہیں ۔مقامی حکومت نے اسے ریموٹ کنٹرول دھماکہ قرار دیا ہے تاہم مقامی افراد کے مطابق یہ ڈرون حملہ ہے ۔طالبان نے واقعہ کی مذمت کرتےے ہوئے کہا کہ ان کا اس واقعہ سے کچھ لینا دینا نہیں ہے کیونکہ یہ ایک عوامی مسئلے اور دو قوموں کے درمیان جرگہ تھا ۔دریں اثنا وسطی صوبہ میدان وردگ کے گورنر جنرل مظفر الدین یمین نے طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات بڑھا دیئے اورسیکورٹی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ افغان طالبان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کریں ۔سعید آباد میں وردگ یونیورسٹی کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان نے میدان وردگ میں حملے نہ کرنے اور لوگوں کونقصان نہ پہنچانے کا وعدہ کیا ہے ۔ذرائع کے مطابق طالبان نے سڑکوں کی تعمیر اور صحت کے کئی منصوبوں میں گورنر وردگ کومدد دینے سمیت سیکورٹی بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت نے جنرل مظفر الدین یمین کی بات پر ان سے وضاحت طلب کرلی ہے تاہم انہوں نے مرکزی حکومت کی بات ماننے سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے ۔