اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) بالآخر جس کا خدشہ تھا وہی ہوا۔ بھارتی پنجاب کی اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت کرتار پور گردوارہ پاکستان سے بات چیت کے ذریعے لے، اس کے بدلے اتنی ہی زمین پاکستان کو دے دے۔ اسمبلی نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کر کے مرکزی حکومت کو بھیج دی ہے۔ واضح رہے کہ کرتار پور بارڈر بلا ویزہ کھولنے کی فیصلے پر ’’امت‘‘ میں جو خدشات ظاہر کئے گئے تھے۔ یہ قرارداد عین اسی کی عکاس ہے۔ صورت یہ ہے کہ بھارتی پنجاب پر کانگریس کی حکومت ہے، جس کے وزیراعلیٰ ریٹائرڈ کیپٹن امریندر سنگھ ہیں۔ نوجوت سنگھ سدھو اسی حکومت کے وزیر سیاحت ہیں۔ واضح رہے کہ کانگریس مرکز میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے، لیکن حیرت انگیز طور پر کرتار پور گوردوارے کو بھارتی تحویل میں لینے کی خوہش پر کانگریس اور بی جے پی ایک نظر آتے ہیں۔ بھارتی پنجاب کی ایک اور اہم جماعت اکالی دل ہے، جسے اندرا گاندھی کے دور میں عروج ملا، جب سیاہ پگڑیاں باندھنے والے سکھوں کا یہ جتھہ جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کی قیادت میں ایک عظیم طاقت بن کر ابھرا اور اس نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل پر قبضہ کر کے اسے ایک قلعہ میں بدل دیا۔ جرنیل سنگھ ایک ناخواندہ سکھ تھا، جس نے سکھوں کی مذہبی تعلیم کا کچھ حصہ حاصل کیا اور سنت جرنیل سنگھ بن گیا۔ وہ آزاد خالصتان کا سب سے پرجوش حامی تھا۔ شعلہ بیان مقرر، کڑوے اور کڑے لہجے میں اندرا گاندھی کی حکومت اور کانگریس کو للکارنے والا سیماب صفت رہنما۔ جس نے سکھوں کے دل جیت لئے۔ بالآخر تب کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے گولڈن ٹیمپل پر فوجی چڑھائی کی اور 3 دن کی جنگ کے بعد بھنڈرانوالہ اپنے درجنوں ساتھیوں سمیت مارا گیا۔ جبکہ بھارتی فوج کی فائرنگ اور گولہ باری سے ٹیمپل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ اس سانحے نے اندراگاندھی کی موت کے پروانے پر دستخط کر دیئے اور چند ماہ بعد 2 سکھ محافظوں نے فائرنگ کر کے اسے مار ڈالا۔ یوں بھارت میں سکھوں اور ہندوئوں کے درمیان ایک ایسے مذہبی تصادم کا آغاز ہوا، جس نے بھارت کی چولہیں ہلا دیں۔ اکالی دل کو تب سے بھارتی پنجاب کی سیاست میں ایک ناگزیر اثر و رسوخ حاصل ہو گیا تھا پھر وقت کے ساتھ ساتھ مذہبی جنونیت سیاسی بلوغت کے زیر اثر آتی گئی۔ اب جبکہ بھارتی پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے کرتار پور گردوارے کا سودا کرنے کے لئے بھارتی حکومت پر دبائو ڈالا ہے۔ ہمیں ان خدشات کو سنجیدگی سے لینا ہو گا۔ جو صورت حال کے اس رخ پر جانے سے پیدا ہو سکتے ہیں۔کیونکہ بھارتی وزیراعظم مودی ایک معتصب اور ظالم ہندو لیڈر ہے۔ وہ مسلمان اور پاکستان کا نام سننا بھی گوارہ نہیں کرتا۔ بھارتی پنجاب اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد حکمراں جماعت اور مودی کی مرضی پر پیش کی گئی ہے۔ لہٰذا اسی قرارداد کو بنیاد بنا کر بھارتی حکومت اگلا قدم اٹھائے گی۔ جس پر کانگریس اور بی جے پی دونوں ایک ہوں گے۔ واضح رہے کہ کرتارپور گوردوارہ اپنی تحویل میں لینے کے لئے بھارت نے 1969 میں بھی کوشش کی تھی۔ لیکن 1970 کی جنگ اور پھر مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے یہ معاملہ ختم کر دیا۔ اب جبکہ پاکستان نے از خود بارڈر کھول کر سکھوں کو بلا ویزہ آنے کی اجازت دی ہے۔ بھارتی حکومت کو ایک بار پھر موقع ملا ہے کہ وہ کرتار پور کے حوالے سے سکھوں کے مذہبی جذبات کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرے۔ ’’امت‘‘ پہلے بھی لکھ چکا ہے کہ کرتار پور سے سکھوں کی جذباتی وابستگی کو مکاری سے استعمال کرنے کی بھارتی کوششوں سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک طاقتور کمیونٹی جو پاکستان کے حق میں ہے۔ اپنی رائے تبدیل کر سکتی ہے۔ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ بھارت زمین کے اس ٹکڑے کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان کو بعض پیش کشیں کر سکتا ہے۔ جنہیں ٹھکرانے کے نتیجے میں سکھوں کو بطور ایک مذہبی طبقے کے پاکستان کے خلاف بھڑکایا جا سکتا ہے۔ بلا ویزہ آنے کی اجازت دینے سے سکھوں کے ذہن میں زمین کے اس ٹکڑے کی ملکیت کا احساس زیادہ شدت سے جگہ بنائے گا۔ جسے بھارتی حکومت مزید ہوا دے گی۔ سکھوں کا ممکنہ مطالبہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستان ان کا مقدس مقام انہیں لوٹا دے یا کم از کم اس کا انتظام ان کے ہاتھ میں دے دے۔ اور مطالبات کے پیچھے بھارتی حکومت ہو گی، جو پاکستان سے سکھوں کی ہمدردی سے پریشان ہے اور یہ بازی پاکستان پر پلٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس سوچ کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان چند بنیادی اقدامات پیشگی کر لے۔ مثلاً بلا ویزہ آنے کی اجازت ختم کر دی جائے اور اس کی جگہ یہ تجویز دے دی جائے کہ بھارتی حکومت کرتار پور بارڈر کے بالکل قریب اپنی حدود میں پاکستانی ویزہ آفس کھولنے کی اجازت دے، تاکہ آنے والے سکھوں کو موقع پر ہی ویزہ دینے کی سہولت فراہم کی جائے۔دوسری بات یہ کہ گوردوارے کے قریب ایک عظیم الشان مسجد تعمیر کی جائے، تاکہ دونوں مذاہب کے درمیان ہم آہنگی میں مزید اضافہ ہو۔ اور آنے والے مہمانوں کو پاکستانیوں کی مذہبی رواداری اور کشادہ قلبی کا عملی مظاہرہ دیکھنے کو ملے۔ ضرورت پڑنے پر اس مسجد کے نمازی اور امام حضرات سکھ یاتریوں کی میزبانی کریں اور ان کے اکرام کے سارے تقاضے پورے کریں۔ آنے والے سکھ یاتریوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کرتار پور گوردوارہ اگرچہ سکھوں کی انتہائی مقدس عبادت گاہ ہے، لیکن یہ پاکستان کی قانونی حدودمیں ہے اور اگر سکھ بطور کمیونٹی یہ چاہتے ہیں کہ اس گوردوارے کا انتظام اور قبضہ انہیں دیا جائے تو وہ بھارتی حکومت پر دبائو ڈالیں کہ وہ اس کے بدلے مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کرانے کی اقوام متحدہ کی قرارداوں پر عمل کرائے۔ اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے تقسیم برصغیر کا نامکمل ایجنڈہ مکمل کرے۔ گوردوارے کی ملکیت کی خواہش میں پنجاب ریاستی اسمبلی نے ایک بار قرارداد منظور کی ہے، جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی مقبوضہ کشمیر میں رائے شماری کے لئے 5 بار قرارداد پاس کر چکی ہے۔ سو اگر دنیا بھر کے سکھ چاہتے ہیں کہ کرتار پور گوردوارہ ان کے قبضے میں آ جائے تو وہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا جابرانہ قبضہ ختم کرانے میں مدد دیں۔ یہ سودا اسی صورت میں ہو سکتا ہے۔ اور آخری تجویز یہ ہے کہ بھارتی سکھوں کو پیش کش کی جائے کہ اگر وہ خالصتان کے نام سے ایک آزاد ملک بنانے میں کامیاب ہو گئے تو کرتار پور گوردوارہ ان کے حوالے کرنے پر سوچا جا سکتا ہے، کیونکہ تب سکھوں کی اپنی ریاست ہو گی اور اس کے ساتھ پاکستان کے خوشگوار تعلقات ہوں گے۔ کیونکہ دونوں کے مذہب میں توحید بنیادی اساس ہے۔ لیکن ایک خالص متعصب ہندو ریاست کے ساتھ اتنے حساس معاملے پر بات نہیں ہو سکتی۔ جس کا براہ راست تعلق سکھوں کے مذہبی عقیدے اور پاکستان کی جغرافیائی سلامتی سے ہے۔ انہیں مثال دی جا سکتی ہے کہ چین کے ساتھ سرحدی حد بندی کے لئے 60 کی دہائی میں جو کمیشن بنا تھا۔ اس کے سربراہ جنرل رضا تھے۔ اور اس کمیشن نے سرحدی حد بندی کے دوران چین کے کئی مطالبات مان لئے تھے، کیونکہ پاکستان چین کو اپنا دوست اور مشکل وقت کا ساتھی سمجھتا تھا۔ یہ کیفیت تب بھی ہو سکتی ہے۔ جب سکھ ایک آزاد اور خود مختار ریاست قائم کر لیں اور گوردوارہ کرتار پور کے حوالے سے پاکستان سے کوئی رعایت مانگیں۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ پاکستانی پنجاب کی سرحد پر کوئی دوست ریاست ہو، ناکہ کوئی دشمن اور متصب ریاست۔پاکستان کی یہ پیش کش چونکہ سکھوں کے دل کی آواز ہو گی۔ اس لئے سکھوں کو عموماً اور اکالی دل کو خصوصاً آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔