نصف صدی تک مسکراہٹیں بکھیرنے والےعلی اعجازلاہورمیں چل بسے

لاہور(امت نیوز) فلم اور ٹی وی کے معروف اداکار علی اعجاز منگل کی صبح لاہور میں انتقال کر گئے ۔ان کی عمر 77 برس تھی اور وہ عارضۂ قلب میں مبتلا ہوکر ایک مقامی نجی اسپتال میں زیرعلاج تھے۔ انہیں 12،13سال قبل فالج بھی ہوا تھا۔ علی اعجاز نے اپنے کیریئر کا آغاز تھیٹر سے کیا۔ وہ 1960 کی دہائی میں ایک ایسے وقت منظرِ عام پر آئے جب پاکستان میں تھیٹر کا بول بالا تھا۔لاہور میں الحمرا آرٹ کونسل کی سٹیج پرکھیل پیش کیےجاتےتھے جوعوام میں بہت مقبول تھے۔1964میں لاہور سےٹی وی کا آغاز ہوا تو اطہر شاہ خان (جیدی) کا لکھا ہوا سلسلے وارکھیل ’لاکھوں میں تین‘ لائیو پیش کیا جانےلگاجس کےتین مرکزی کرداروں میں ایک علی اعجاز نے نبھایا۔ان کا تکیہ کلام ’ایوری باڈی کو چائے کا صلح مارتا ہے!‘ بچے بچے کی زبان پر آ گیا۔یہیں سے انھیں میڈیا میں پہلی بریک ملی۔ یہ زمانہ فلموں کے عروج کا دور تھا اور ٹی وی کے راستے بہت سے نئے چہرے پردہِ سیمیں پر نمودار ہو رہے تھے۔علی اعجاز نے فلموں میں کچھ چھوٹے کردار تو ادا کیے تھے مگر ان کو فلموں میں جانے کا اصل موقع عارف وقار کے پیش کردہ ٹی وی پلے ’دبئی چلو‘ کے بعد ملا۔ اسی کھیل پر مبنی اسی نام کی فلم 1980میں ریلیز ہوئی جس کے بعد علی اعجاز کو دھڑا دھڑا فلمیں ملنا شروع ہو گئیں۔1980کی دہائی میں اداکار ننھا (خاور رفیع) کے ساتھ ان کی جوڑی فلمی ناظرین میں بہت مقبول رہی۔جب وہ فلموں میں گئے تو ایک پرانی فلمی روایت کے مطابق انھوں نے اپنے لیے ایک فلمی نام بھی چنا جو تھا علی بابا۔ لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ ایک سینیئر ریڈیو آرٹسٹ پہلے یہ نام اپنا چکے ہیں انھوں نے صرف ایک فلم کے بعد یہ نام ترک کر دیا اور واپس علی اعجاز پر آگئے۔۔’دبئی چلو‘ کے علاوہ جو چیز علی اعجاز کے فن کو عرصہِ دراز تک زندہ رکھے گی وہ عطا الحق قاسمی کے لکھے ہوئے مزاحیہ کھیلوں کے سلسلے ہیں۔ٹی وی کے ان ڈراموں میں علی اعجاز نے مختلف عمروں، مختلف لہجوں اور مختلف شخصیات والے کردار نبھائے جن سے اس کی اداکاری کے تنوع کا پتا چلتا ہے۔وہ بوڑھے کرداروں کی ادائیگی میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ تولتے منہ والے نیم مخبوط الحواس بوڑھے کا کردار ادا کرنا ان کا من پسند مشغلہ تھا۔ خواجہ اینڈ سنز میں ان کا کردار آج بھی پاکستان ٹیلیویژن کے ناظرین کے پسندیدہ کرداروں میں سے ایک ہے۔ 106فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔وہ مزاحیہ ہیرو کے طور پر بہت مقبول ہوئے اور اداکار ننھا کے ساتھ ان کی جوڑی مقبولیت کی بلندیوں پر رہی۔1979 کی سپر ہٹ سماجی فلم دبئی چلو‘سالا صاحب‘مفت بر‘دادا استاد ، ‘سوہرا تے جوا‘منجھی کتھے ڈاہواں‘مسٹر افلاطون‘ووہٹی دا سوال اے اوردھی رانی‘ سمیت درجنوں اردو اور پنجابی ہٹ فلمیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ان کے مشہور ڈراموں میںخواجہ اینڈ سنز‘کھوجی‘ اورشیدا ٹلی شامل ہیں۔علی اعجاز کو 14اگست 1993کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا جبکہ انہوں نے نگار ایوارڈ اور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سمیت دیگر کئی اعزازات بھی اپنے نام کیے۔علی اعجاز آخری عمر میں معاشرے اور حکومت کی روایتی بےحسی کا شکار رہے۔ انہوں نے سوگواروں میں بیوہ کشور اور 2بیٹے بابر اور یاسر چھوڑے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment