اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) ترکی کے ادیب عزیز نیسن کی ایک کہانی سن لیں۔ بہت برس پہلے کی بات ہے، جب جوتے عام دکانوں پر نہیں بکا کرتے تھے، بلکہ موچی ہی انہیں بناتے اور بیچتے تھے، ان دنوں ایک تاجر موچی کے پاس آیا اور شکایت کی کہ چچا تمہارے جوتے اب ناقص ہو گئے ہیں، پہلے ایک جوڑا تین برس چلتا تھا، لیکن اب ایک برس سے زیادہ نہیں چلتا۔ میرے آٹھ بچے ہیں، دو ہم میاں بیوی ہیں، ہر سال جوتے خریدیں تو تین برس میں بیس جوڑے جوتے زیادہ خریدنے پڑیں گے۔ اس طرح میرا تو دیوالیہ ہو جائے گا، براہ خدا جوتے بہتر اور مضبوط بناوٴ، تاکہ مجھ جیسوں کا نقصان نہ ہو۔ موچی یہ سن کر بہت شرمندہ اور محجوب ہوا، پھر نظریں نیچی کر کے بولا۔ جناب عالی! آپ کی شکایت بجا ہے، لیکن میں کیا کروں؟ آج کل چمڑہ ہی ناقص، کمزور اور پتلا آرہا ہے، پہلے کا چمڑہ نہایت دبیز اور مضبوط ہوتا تھا، لیکن اب واقعی ہلکا اور ناقص ہے، تاجر یہ سن کر چلا گیا، لیکن موچی اٹھا اور سیدھا چمڑہ فروش کے پاس جا پہنچا۔ علیک سلیک کے بعد بولا، جناب عالی! آپ نہایت ناقص چمڑہ فروخت کر رہے ہیں، جس کے بنے جوتے سال بھر سے زیادہ نہیں چلتے اور گاہکوں کو پریشانی ہوتی ہے، آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ چمڑہ فروش نے موچی کو گدی پر بٹھا کر سبز چائے پیش کی اور بولا، بھائی صاحب! آپ کی شکایت بالکل بجا ہے، لیکن کیا کروں، پیچھے سے کھالیں کمزور اور پتلی آرہی ہیں، پہلے بیل نہایت اچھی اور مضبوط کھالیں دیتے تھے، لیکن اب لگتا ہے کاغذ کی کھالیں دے رہے ہیں۔ موچی یہ سن کر خاموش ہو گیا اور چائے پی کر چلا گیا، لیکن چمڑہ فروش اٹھا اور سیدھا مویشی منڈی گیا، جہاں اسے ایک تندرست بیل نظر آیا، وہ بیل سے شکایت کرنے لگا کہ بیل میاں تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ اتنی ناقص کھال ہمیں دیتے ہو، جس سے بنے جوتے سال بھر بھی نہیں چلتے، پہلے تو بڑی اچھی کھال دیا کرتے تھے، اب کیا ہوا؟ بیل ڈکرا کر بولا، میرے آقا! آپ کی شکایت بجا ہے، ہم مویشی آپ انسانوں کی خدمت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں، ہمارا گوشت، خون، ہڈیاں، کھال، اوجھڑی، پائے سب آپ کے کام آتے ہیں، یہاں تک کہ آنکھیں، زبان اور سینگ بھی، لیکن خوراک تو ہمیں آپ ہی دیتے ہیں، پہلے ہمیں سبز چارہ ملتا تھا، ساتھ سبزیاں اور کبھی کبھی بچے ہوئے پھل بھی، لیکن اب صرف سوکھی گھاس اور خشک بھوسی ٹکڑے ملتے ہیں۔ انہیں چبا کر میرے جبڑے زخمی ہو جاتے ہی اور میں کئی دن کھا نہیں سکتا، آپ بتائیں، اس خوراک پر اچھی کھال کیسے بنے گی؟ چمڑہ فروش قائل ہو گیا اور سر ہلاتا ہوا چلا گیا، لیکن بیل اپنے مالک کے پاس گیا اور بولا کہ مالک آپ ہمیں تازہ سبز چارہ کیوں نہیں دیتے، سوکھی گھاس پر کیوں ٹرخاتے ہیں۔ اس سے ہماری کھال مضبوط نہیں بنتی اور کھال سے بنے جوتے سال بھر سے زیادہ نہیں چلتے، مالک ٹھنڈی سانس لے کر بولا، پیارے بیل! تمہاری شکایت بجا ہے، لیکن میں بھی کیا کروں؟ چارہ فروش تاجر نے سبز چارے کے نرخ اتنے بڑھا دیئے ہیں کہ اسے خریدنا میرے بس سے باہر ہو گیا ہے۔ اب سوکھی گھاس بھی وہ اس نرخ پر دیتا ہے، جس پر پہلے سبز چارہ دیا کرتا تھا، میں کیا کروں، کیسے پورا کروں؟ بیل سن کر ڈکراتا اور گردن ہلاتا چلا گیا، لیکن مالک سیدھا تاجر کے پاس جا پہنچا اور بولا،، جناب اب تو جانوروں کے آگے بھی شرمندگی ہو رہی ہے، آپ کی سوکھی گھاس سے جانور توانا نہیں ہوتے، ان کے جسم پر گوشت اور چربی نہیں آتی اور وہ شکایت کرتے ہیں، تاجر بولا، پیارے مالک! بات تمہاری سو فیصد درست ہے، لیکن میں کیا کروں، میرے آٹھ بچے ہیں، دو ہم میاں بیوی ہیں، پہلے ہم جو جوتے خریدتے تھے، وہ تین برس چلتے تھے، لیکن اب موچی ناقص جوتے بناتا ہے، جو سال بھر سے زیادہ نہیں چلتے، یوں حساب لگاوٴ تو تین برس میں مجھے بیس جوڑے جوتے زیادہ خریدنے پڑتے ہیں، میں یہ نقصان کیسے پورا کروں گا۔ نرخ نہ بڑھاوٴں تو کیا کروں؟ مالک یہ سن کر خاموش ہو گیا، لیکن آج حکومت نے ڈالر کے ریٹ آسمان پر پہنچا دیئے ہیں۔ گیس، بجلی، سبزی، گوشت سب مہنگا کر دیا ہے کہ اسے خسارے کا سامنا ہے اور یہ خسارہ قیمت بڑھانے سے ہی پورا ہو گا۔ شاید اس کے بھی آٹھ بچے ہیں اور دو یہ میاں بیوی ہیں۔ شاید اسے بھی بیس جوڑی جوتے کی اضافی خریداری کا نقصان پورا کرنا ہے اور شاید وہ بھی موچی کو الزام دے کر خود کو بے قصور سمجھ رہی ہے۔