زرداری کیلئے 2طرف سے شکنجہ تیار

کراچی/ اسلام آباد (رپورٹ: نواز بھٹو/ نمائندہ خصوصی) شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف زرداری کیلئے دو طرف سے شکنجہ تیار ہو گیا۔ میگا منی لانڈرنگ کیس میں جے آئی ٹی نے رپورٹ مکمل کر لی، جو آج سپریم کورٹ میں جمع کرائے جانے کا امکان ہے، اس میں زرداری کا نام بطور ملزم شامل ہے۔ دوسری جانب امریکی فلیٹ ظاہر نہ کرنے پر حکومت نے ان کی نااہلی کیلئے الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ منی لانڈرنگ اسکینڈل میں سربراہ اومنی گروپ انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا ہے، جبکہ سندھ حکومت کی اہم شخصیات بھی زد میں آ گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ تحقیقات کے دوران20 ہزار جعلی اور بے نامی کھاتوں کا سراغ لگایا گیا، جبکہ زرداری، بلاول، بختاور اور فریال تالپور کے اکاؤنٹس میں 82ارب روپے گئے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت نے ممکنہ گرفتاریوں پر بھرپور احتجاج کی ہدایت کر دی ہے۔ وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ اثاثے چھپانے پر آصف زرداری قومی اسمبلی کی رکنیت کے اہل نہیں رہے۔ تفصیلات کے مطابق پی پی قیادت کے لئے خطرے کی گھنٹی بج گئی اور الٹی گنتی شروع ہو گئی ہے۔ سندھ کے سب سے بڑے منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے تحقیقات مکمل ہونے کے بعد رپورٹ تیار کر لی ہے، جس کو سپریم کورٹ میں جمع کروانے کے لئے کراچی سے اسلام آباد لے جایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ رپورٹ آج جمعرات کے روز کسی بھی وقت عدالت میں جمع کرا دی جائے گی۔ رپورٹ 7 ہزار 500 صفحات پر مشتمل ہے، جس کو 12 والیمز کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے اور بینکوں سے ملنے والا ریکارڈ بھی اس کا حصہ ہے۔ ذرائع کے مطابق منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تحقیقات میں دعویٰ کیا گیا کہ 20 ہزار جعلی اور بے نامی اکاؤنٹس کا سراغ لگایا گیا، جبکہ 82 ارب روپے آصف زرداری، بلاول زرداری، بختاور اور فریال تالپور کے اکاؤنٹس میں گئے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کے مندرجات میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے دوران حکومت سندھ نے تسلی بخش تعاون نہیں کیا، درجنوں خطوط لکھے جانے کے باوجود ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق منی لانڈرنگ کی تفتیش کے سلسلے میں ان ممالک نے بھی تعاون نہیں کیا، جہاں پیسہ بھجوایا گیا۔ ریکارڈ کے حصول کے لئے مختلف سطحوں پر رابطے کئے گئے۔ ذرائع کے مطابق تحقیقات کے دوران بیان قلمبند کروانے کے لئے 600 افراد کو طلب کیا گیا تھا، جن میں سے60 افراد بیرون ملک ہونے کی وجہ سے بیان قلمبند نہ کروا سکے، جبکہ مجموعی طور پر 500 افراد نے بیان قلمبند کروائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سرکاری دولت منی لانڈرنگ میں استعمال کی گئی۔ رپورٹ کو حتمی شکل دیئے جانے کے بعد پی پی کی اعلیٰ قیادت سر جوڑ کر بیٹھ گئی ہے اور مختلف سطحوں پر رابطے کئے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پی پی کی مرکزی قیادت کی طرف سے صوبائی رہنماؤں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ رواں ماہ بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے، جس کے نتیجے میں مرکزی قیادت کی گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جا سکتی ہیں، جس کے خلاف بھرپور احتجاج کی تیاری کی جائے۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی کی طرف سے منی لانڈرنگ اسکینڈل کی تفتیش کے دوران آصف زرداری اور فریال تالپور سمیت97 افراد کے خلاف تحقیقات کی گئیں اور شواہد اکٹھے کئے گئے، جبکہ سندھ حکومت کے تمام محکموں اور اداروں سے ٹھیکوں کا 10 سالہ ریکارڈ طلب کیا گیا اور اس کی چھان بین کی گئی، مختلف فرمز کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثوں کی بھی چھان بین کی گئی۔ منی لانڈرنگ کیس کی تفتیش کے دوران انور مجید، عبدالغنی مجید اور حسین لوائی کے خلاف بھی تحقیقات کی گئیں۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بھی شامل تفتیش کیا گیا۔ بلاول بھٹو کو 2 بار نوٹس بھیجا گیا، تاہم وہ خود پیش نہیں ہوئے اور وکلا کے ذریعے جواب جمع کروایا گیا۔ ذرائع کے مطابق جعلی اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانے والے 20 ٹھیکیدار بھی رپورٹ میں ملزم ہونگے، جن غریب افراد کے جعلی اکاؤنٹس کھول کر ان میں اربوں روپے منتقل کئے گئے۔ رپورٹ میں ان کو سلطانی گواہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی کی طرف سے وعدہ معاف گواہوں سے حاصل ہونے والی تفصیلات کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی کی طرف سے مرتب کی جانے والی رپورٹ میں انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا ہے۔ زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ میں جعلی بینک اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی منتقلی کے ٹھوس شواہد ملنے پر آصف زرداری، بلاول زرداری اور فریال تالپور کے نام بھی ملزمان کی فہرست میں شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق تحقیقات کے دوران دو شوگر ملیں کوڑیوں کے مول نیلام کرنے اور بیمار صنعتوں کی بحالی کے نام پر اربوں روپے کی سبسڈی دینے کے معاملے پر وزیراعلیٰ سمیت سندھ حکومت کے دو درجن سے زائد اعلیٰ افسران اور حسین لوائی سمیت30 بینکرز بھی ملزمان کی فہرست میں شامل ہونگے۔ واضح رہے کہ جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے انکشاف پر سپریم کورٹ سے 6 ستمبر کو جے آئی ٹی بنانے کی منظوری کے بعد ایف آئی اے کی طرف سے6 رکنی ٹیم تشکیل دی گئی، جس کی سربراہی ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اکنامک کرائم ونگ احسان صادق کر رہے تھے۔ اس کے دیگر ارکان میں کمشنر انکم ٹیکس عمران لطیف منہاس، جوائنٹ ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک ماجد حسین، ڈائریکٹر نیب نعمان اسلم، ایس ای سی پی کے ڈٓائریکٹر محمد افضل اور آئی ایس آئی میں تعینات بریگیڈیئر شاہد پرویز شامل ہیں۔ ایف آئی اے نے جولائی میں اومنی اور زرداری گروپ کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کیا تھا، 29 بے نامی کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں 35 ارب روپے کی ٹرانزیکشنز کے شواہد ملے تھے۔ دریں اثنا اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری کا امریکہ میں فلیٹ سامنے آیا ہے۔ آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کے تحت منتخب نمائندے کو اثاثے بتانے ہوتے ہیں، مگر زرداری کی جانب سے جو گوشوارے جمع کرائے گئے ہیں، ان میں اس اپارٹمنٹ کا ذکر نہیں، لہٰذا خرم شیرزمان کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ الیکشن کمیشن میں ریفرنس دائر کریں، کیونکہ آصف زرداری اثاثے چھپانے پر اب رکن قومی اسمبلی رہنے کے اہل نہیں رہے۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ نوازشریف اور زرداری اپنے آخری الیکشن لڑ چکے ہیں، یہ لوگ تاش کے پتوں کی طرح بکھر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیصل واوڈا کا اپارٹمنٹ گوشواروں میں ظاہر کیا گیا ہے، عابد شیر علی نے اپارٹمنٹ کا معاملہ ان دستاویزات سے لیا ہے، جو فیصل واوڈا نے جمع کرائی ہیں۔ علاوہ ازیں نجی ٹی وی سے گفتگو میں وزیراعظم کے معاون خصوصی بیرسٹر شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ پاناما طرز پر آصف زرداری کے خلاف بھی کیس بنے گا، نیویارک کے علاقے مین ہٹن کی جائیداد 2007 سے زرداری کے نام ہے اور وہ اس کے براہ راست مالک ہیں۔ پراپرٹی کی پارکنگ لاٹ بھی زرداری کے نام ہے۔ آصف زرداری نے مین ہٹن کی جائیداد گوشواروں میں ظاہر نہیں کی، جب وہ صدر بنے تھے تو تب بھی انہوں نے یہ پراپرٹی ظاہر نہیں کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آصف زرداری کی دبئی میں بھی پراپرٹی کا انکشاف ہوا ہے، ان کی دبئی میں صرف ایک پراپرٹی ڈکلیئر ہے۔ مصدقہ اطلاعات جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سامنے آئیں گی، جے آئی ٹی کو جعلی اکاؤنٹس اور بینیفشریز کا پتا لگانے کا ہدف دیا گیا تھا۔

Comments (0)
Add Comment