منی پور(امت نیوز) مودی حکو مت پر سوشل میڈیا کے ذریعے تنقید بھی بھارتی صحافی کو مہنگا پڑ گئی ۔2 گاڑیوں میں سوار نصف درجن اہلکاروں وانگ کھم کے منی پور میں واقع گھر پردھاوابول کر انہیں اٹھالیا ۔کارروائی کے دوران وکیل سے رابطہ کرنے کی اجازت بھی نہیں دی۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق وقعہ گزشتہ ماہ شمال مشرقی پہاڑی ریاست منی پور میں پیش آیا جہاں سادہ کپڑوں میں ملبوس لگ بھگ آدھا درجن پولیس اہلکار دو گاڑیوں میں سوار ہوکر کیبل نیوز چینل سے وابستہ ایک صحافی کشورچندرا وانگ کھم کے دو منزلہ گھر پر آئے اور انہیں پکڑ کر لے گئے۔جس وقت پولیس آئی تھی تو اس وقت وانگ کھم اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ہمراہ کھانے کے لیے تیار ہورہے تھے۔ انہوں نے پولیس والوں سے پوچھا کہ کیا وہ اپنے وکیل کو فون کریں۔ انہوں نے فون کرنے سے منع کیا اور انہیں کہا کہ پانچ منٹ میں تیار ہوکر روانہ ہوں۔ ان کی بیوی اور بھائی بھی دوسری گاڑی میں ان کے پیچھے روانہ ہوئے۔ وہ پانچ گھنٹے تک پولیس اسٹیشن میں انتظار کرتے رہے اور اس دوران وانگ کھم سے پوچھ گچھ جاری رہی۔ سردی کے پیش نظر رنجیتا گھر سے کچھ گرم کپڑے لانے چلی گئیں۔ جب وہ واپس آئیں تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے شوہر کو دارالحکومت امفال کے مضافات میں واقع انتہائی سکیورٹی والی جیل میں منتقل کردیا گیا ۔صحافی کی اہلیہ کے مطابق ہمیں دوسرے دن کے اخبار سے معلوم ہوا کہ انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق وانگ کھم کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے 19 نومبر کو اپنے فیس بک صفحے پر چار ویڈیوز اور کچھ کمینٹ لگائے تھے جن میں ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقامی حکومت پر تنقید کی گئی تھی اور وہاں کے وزیر اعلیٰ کو وزیر اعظم نریندر مودی کا پٹھو قرار دیا گیا تھا۔ پولیس انسپکٹر کے بوبی نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ انہوں نے فیس بک پر سرفنگ کے دوران یہ ویڈیوز دیکھیں جو حکومت کے خلاف نفرت اور عدم اطمینان پھیلاتی ہیں یا پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں۔وانگ کھم انڈیا میں ہراساں کیے جانے والا تازہ ترین صحافی ہے۔ اس سے قبل دہلی میں مقیم کلم نگار اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ابھیجیت آئیر مترا کو طنزیہ ٹویٹس چھاپنے کی پاداش میں 44 دن تک قید کردیا گیا تھا۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈزر کی صحافتی آزادی کی عالمی فہرست میں انڈیا کا نمبر 138واں ہے۔ مسٹر وانگ کھم کے وکیل کے مطابق یہ سب کچھ سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال اور آزادی اظہار پر حملے کے سوا کچھ نہیں۔