ابو واسع
بید کے کاریگر اختر کا کہنا تھا کہ ’’بید یا لکڑی کا فرنیچر ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ اب تو لوگ پلاسٹک کے چکر میں پڑ گئے ہیں، حالانکہ وہ نری بیماری ہے۔ جبکہ صدیوں سے لکڑی کا فرنیچر بنایا جا رہا ہے، آخر کوئی وجہ تو ہے کہ لوگ اسے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ایک روز میرے پاس ایک شخص آیا۔ کہنے لگا کہ مجھے گاڑی کیلئے بید کی سیٹ بنا دیں۔ میں نے اسے گاڑی کی سیٹ کے اوپر رکھنے کیلئے بید کی سیٹ بنا دی۔ ظاہر ہے بید خاصہ مہنگا پڑتا ہے۔ میں نے ویسے ہی اسے کہا کہ آپ بازار سے لکڑی کی بنی ہوئی کور سیٹ لے لیتے، جو عام لوگ رکھتے ہیں۔ تو وہ کہنے لگا کہ میں ڈاکٹر ہوں اور میں قدیم و جدید کتب کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ آج آپ کو ایک اہم بات بتائوں کہ جو شخص بید کی سیٹ پر بیٹھتا ہے، اسے کبھی بواسیر کا مرض نہیں ہوتا۔ اور جسے بواسیر کا مرض ہو، اگر وہ بید کی سیٹ استعمال کرنا شروع کر دے تو ٹھیک ہو جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ اس میں کیا حکمت ہے؟ تو اس ڈاکٹر نے کہا کہ بید پانی میں پیدا ہوتا ہے اور اس کی تاثیر اتنی ٹھنڈی ہوتی ہے کہ یہ بواسیر کے زہر کیلئے تریاق کا کام کرتا ہے۔ چنانچہ میں حفظ ما تقدم کی غر ض سے بید کی سیٹ ہی استعمال کرتا ہوں۔ میرے آفس اور گھر میں بید کا بنا ہوا فرنیچر ہی رکھا ہوا ہے۔ میرے لیے یہ بات یوں بھی اہم ہے کہ ایک دن شنکیاری سے ایک شخص میرے پاس چھ کرسیاں لے کر آیا اور کہنے لگا کہ انہیں بید کی تاروں سے بُن دیں۔ میں نے بید کی تاروں سے ان کرسیوں کی بُنائی کر دی اور اس شخص سے چالیس ہزار روپے لئے۔ اب لکڑی کی کرسیوں پر پلاسٹک کے بجائے بید کی بُنائی میں نے پہلی بار کی۔ اسے یہ بات بتائی تو اس نے کہا کہ استاد جی، آپ بڑے ماہر کاریگر ہیں، لیکن کیا آپ یہ بات بھی جانتے ہیں کہ اس کرسی پر بیٹھنے والا کبھی بواسیر کا شکار نہیں ہوتا۔ اسی طرح اسے کبھی کمر کی تکلیف بھی نہیں ہوگی۔ بید میں یہ خوبی ہے کہ کئی بیماریوں سے انسان کو چھٹکارا دلا سکتا ہے۔ میں نے اسے بتایا کہ مجھے ایک ڈاکٹر نے بواسیر کے بارے میں بتایا تھا، لیکن دیگر بیماریوں کے بارے معلوم نہیں تھا۔ بہرحال اس روز مجھے یہ یقین ہوگیا کہ فطرت نے جو کچھ انسان کیلئے پیدا کیا ہے، اس میں نقصانات نہیں، بلکہ فوائد ہی فوائد ہیں‘‘۔
اختر کے ساتھ ایک اور پرانا کاریگر ندیم بھی موجود تھا۔ اس نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے بتایا کہ ’’اس کام میں کچھ بھی ضائع نہیں ہوتا۔ فرض کریں کہ ہم کبھی بید کو گرم کرتے ہیں اور اس میں نمی نہیں ہوتی، چنانچہ موڑتے ہوئے وہ ٹوٹ جاتا ہے تو ہم وہاں سے اس کا جوڑ لگا لیتے ہیں۔ کچھ ضائع نہیں ہوتا۔ یہ اس کام میں ایک ایسا مثبت عمل ہے، جو بہت کاموں میں نہیں ہوتا۔ ہاں البتہ بید آگ بہت جلدی پکڑ لیتا ہے۔ اگرچہ اسے آگ پر گرم کر کے ہی ہم کام کرتے ہیں، لیکن اسے ایک حد تک حدت دی جاتی ہے اور یہ بھی دھیان رکھا جاتا ہے کہ آگ کس مقدار میں دی جائے۔ ورنہ تو یہ لمحوں میں آگ پکڑتا ہے‘‘۔ اس کام کا پاکستان میں اب مستقبل کیا ہے؟ اس سوال پر ندیم نے کہا کہ ’’مستقبل تو ہے۔ اس فرنیچر کو پسند کرنے والے زیادہ تر گورے (غیر ملکی) یا پھر فورسز کے لوگ ہوتے ہیں۔ وہی زیادہ تر ہم سے بید کا مال بنوا کر لے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لانگ لائف اور ویٹ لیس ہے۔ پھر چونکہ فورسز کے لوگ بھی بہت جلد ایک شہر سے دوسرے شہر ٹرانسفر ہوتے رہتے ہیں، اس لیے وہ بھاری سامان ساتھ رکھنا پسند نہیںکرتے اور پائیدار اور ہلکی چیز پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ فرنیچر میں وہ بید کو پسندکرتے ہیں۔ ایک مرتبہ پیسہ خرچ کر کے اچھی اور وزن میں ہلکی چیز بنوا لیتے ہیں۔ اکثر لوگ تو اسے کار پر رکھ کر لے جاتے ہیں۔ اسی طرح وہ غیر ملکی بھی جو پاکستان میں کم قیام کرتے ہیں، وہ بھی بھاری سامان رکھنے کے حق میں نہیں ہوتے۔ چنانچہ وہ بھی بید کو کافی پسند کرتے ہیں۔ اگر وہ واپس بھی جا رہے ہیں تو ایسے سامان کو ٹھکانے لگانا آسان ہے اور ان کے زیادہ تر پیسے بھی واپس آ جاتے ہیں۔ آپ اسلام آباد میں اکثر بڑے آکشنز پر گوروں کا استعمال شدہ بید کا فرنیچر دیکھیں گے، جو آکشن کے لیے آیا ہوتا ہے۔ چونکہ عام لوگ نیا اور مہنگا بید کا فرنیچر نہیں خرید پاتے، اس لیے وہ آکشن سے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، جو آدھی قیمت پر مل جاتا ہے‘‘۔
اختر کا مزید کہنا تھا کہ ’’بید ایسی چیز ہے کہ اس سے ہر قسم کی چیز بنائی جا سکتی ہے۔ صوفہ سیٹ، چارپائی، ڈبل بیڈ، ڈریسنگ ٹیبل، ٹوکریاں، ڈائننگ ٹیبل وغیرہ۔ یہاں تک کہ پرندے، ہاتھی، زرافہ، موٹر سائیکل، سائیکل وغیرہ ہر چیز بنائی جا سکتی ہے۔ بعض چیزیں استعمال میں آتی ہیں اور بعض صرف ڈیکوریشن کیلئے بنوائی جاتی ہیں۔ جو چیز لکڑی سے نہیں بنائی جاسکتی، وہ بید سے بن جاتی ہے‘‘۔ اسی دوران اختر صوفے کیلئے بید کے لمبے ٹکڑے کو بینڈ سے موڑ رہا تھا۔ اچانک وہ ٹوٹ گیا۔ ہم نے اختر سے کہا کہ اب تو یہ ٹوٹ گیا ہے۔ یہ ٹکڑا تو ضائع ہوجائے گا۔ تو اختر نے کہا کہ ’’بید میں کوئی چیز ضائع نہیں ہوتی۔ اول تو ہماری کوشش ہوتی ہے کہ موڑتے وقت کوئی چیز ٹوٹنے نہ پائے۔ لیکن موڑتے وقت جس جگہ نمی نہیں ہو گی، وہ گرم ہوکر ٹوٹ جائے گی۔ چنانچہ وہاں جوڑ لگادیا جاتا ہے اور آگے سے اسے موڑ لیتے ہیں۔ وہی چند انچ کا ٹکڑا جو کہ موڑتے وقت ٹوٹا تھا، اسے کاٹ کر الگ کر دیا جاتا ہے، باقی جوڑ لگا کر دوبارہ وہیں سے کام شروع ہو جاتا ہے۔ اب دیکھیں۔ جب ہم اسے گرم کرتے ہیں تو یہ موڑنے والی جگہ سیاہ ہوجاتی ہے۔ اسے ہم استرے سے ایسے صاف کرتے ہیں، جیسے سر کے بال اتارے جاتے ہیں‘‘۔ کیا اس پر پالش بھی کی جاتی ہے؟ تو اختر نے بتایا کہ ’’اس فرنیچر پر اس طرح پالش نہیں ہوتی، جیسے لکڑی کے فرنیچر پر کی جاتی ہے۔ جب یہ مال تیار ہو جاتا ہے تو پھر اس پر ہم لوگ وارنش کر دیتے ہیں۔ وارنش سے صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس میں چمک آجاتی ہے۔ اصل میں تو بید کا اپنا رنگ ہوتا ہے، جو وارنش کے بعد نیچے سے اٹھتا ہے اور وہ بہت بھلا معلوم ہوتا ہے‘‘۔ بید کی تاریں بظاہر تو بہت نازک دکھائی دیتی ہیں، کیا یہ ٹوٹتی نہیں ہیں؟ تو اس پر ندیم نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ نازک بید کے تار کسی تیز دھار آلے کے بغیر کسی صورت نہیں کٹتے۔ اسے عموماً گھروں میں بچے بلیڈ سے کاٹ دیتے ہیں۔ لیکن اسے دوبارہ ٹھیک کر دیا جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کے بچے تاریں کاٹ دیتے ہیں تو وہ ہمیں گھر لے جاتے ہیں۔ ویسے ہم گھر میں کام کرنے کے بجائے گاہک کو صوفہ وغیرہ ورکشاپ میں لانے کو کہتے ہیں۔ کیونکہ ورکشاپ میں ہر چیز دستیاب ہوتی ہے اور جو چیز درکار ہو، فوری نکال کر لگا دی جاتی ہے۔ لیکن جب گاہک مجبور کرتا ہے تو پھر ہمیں گھر جاکر کام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن وہاں گاہک کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاس اگر کچھ ایسا دستیاب نہیں ہے، جس کی ضرورت ہے تو ہم اس طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں کہ اب کون دوبارہ ورکشاپ جائے اور یہ چیز لے کر آئے۔ اس لیے ضروری ہے کہ جب بھی بید کے سامان کو رپیرئنگ کی ضرورت ہو تو اسے ورکشاپ لایا جائے۔ یہ کوئی بڑھئی کا کام تو ہے نہیں کہ لکڑی کا سامان ہے، چلو کہیں سے خراب ہوگا تو کہیں سے بھی لکڑی اٹھا کر اسے جوڑ لیا جائے گا۔ یہ بہت نازک کام ہے اور اس کی ریپرئنگ میں بہت زیادہ دھیان رکھنا پڑتا ہے۔ ریپرئنگ میں زیادہ تر خواتین آکر مجبور کرتی ہیں کہ ہم گھر آکر کام کریں۔ انہیں بہت سمجھایا جائے، لیکن وہ اس بات کو سمجھ نہیں پاتیں۔ جبکہ گاہک بھی زیادہ تر خواتین ہی ہوتی ہیں، کیوں کہ گھر کی سجاوٹ کا خیال خواتین کو زیادہ ہی ہوتا ہے۔ مرد کو ہم سمجھا کر قائل کر لیتے ہیں لیکن ایسے معاملات میں عورت کو قائل کرنا آسان کام نہیں ہے‘‘۔ بید کے کام میں گاہک کو کس طرح دھوکا دیا جاتا ہے؟ اس حوالے سے ندیم اور اختر نے بڑی اہم باتیں بتائیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭