زرداری اور ساتھیوں کے خلاف 16 مقدمات کی سفارش

کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) جعلی اکاؤنٹس و منی لانڈرنگ کیس میں سپریم کورٹ کے حکم پر قائم کی گئی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی ہے۔ رپورٹ میں سابق صدر آصف زرداری و ان کے ساتھیوں، ہمشیرہ فریال تالپور، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، اومنی گروپ و بینک افسران کیخلاف 16 مقدمات درج کرنے اور سمٹ بینک کو تحویل میں لینے کی سفارش کر دی ہے۔ رپورٹ میں 24 کلیدی ملزمان کی فہرست کے ساتھ کئی اہم شخصیات اور آصف زرداری کے قریبی دوستوں کے نام بھی جعلی اکاؤنٹس، بدعنوانی، پلاٹ الاٹمنٹس ودیگر دھندوں میں ملوث قرار دیئے گئے ہیں۔ پیر کو لاہور رجسٹری میں مقدمے کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس ثاقب نثار نے زرداری اور اومنی گروپ مالکان کے وکلا کو مخاطب کر کے کہا کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں اربوں کے کھانچے ہیں، لگتا ہے کہ اومنی گروپ مالکان کا غرور ختم نہیں ہوا، قوم کے اربوں روپے کھا گئے ہیں، لیکن پھر بھی بدمعاشی کر رہے ہیں، ان لوگوں کو معاف نہیں کر سکتے، جنہوں نے قوم کا پیسہ کھایا، لگتا ہے ملزمان کو اڈیالہ جیل سے کہیں دوسری جگہ منتقل کرنا پڑے گا۔ انور مجید سے اب کوئی رحم نہیں ہوگا۔ عدالت عظمیٰ نے احتساب عدالت کا فیصلہ آنے تک اومنی گروپ کے انور مجید اور ان کے اہلخانہ اور زرداری گروپ کے تمام اثاثے منجمد کرنے کا حکم دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر میگا منی لانڈرنگ و جعلی اکاؤنٹس کیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کر دی ہے، جس میں تمام ملزمان کیخلاف16 مقدمات درج کر کے معاملات مزید تفتیش و ریفرنس دائر کرنے کیلئے نیب کے سپرد کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں آصف زرداری، فریال تالپور، انور مجید، عبد الغنی مجید، اسلم مسعود، محمد عارف خان، نورین سلطان، کرن امان، عدیل شاہ راشدی، طہٰ رضا، حسین لوائی اور ناصر عبداللہ لوتھا سمیت 24 افراد کو ملزم قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سمٹ بینک میں آصف زرداری کی ایما پر 14 ارب کی کرپشن پر ملوث افراد کے خلاف کیس مزید تحقیقات کیلئے نیب کو بھیجنے، بینکنگ کمپنیز آرڈیننس 1962 کے تحت اسٹیٹ بینک سے سمٹ بینک کو تحویل میں لینے یا اس کا نیشنل سمیت کسی بھی بینک سے الحاق کرنے کی سفارش کی گئی۔ رپورٹ کے مطابق اومنی گروپ کی کمپنیوں کو نیشنل، سندھ اور سمٹ بینک کے حکام نے ملی بھگت سے60 ارب سے زائد کے قرضے دیئے اور یہ رقوم بعد میں مختلف جعلی اکاؤنٹس و حوالہ کے ذریعے باہر بھیجی گئیں۔ دادو اور ٹھٹھہ شوگر ملیں کوڑیوں کے بھاؤ بیچ کر خزانے کو 89 کروڑ 50 لاکھ روپے کا نقصان پہنچانے پر سندھ کے سابق وزیر خزانہ کیخلاف ریفرنس داخل کرنے کیلئے معاملہ نیب کو بھیجا جائے۔ جے وی پارک لین کیس کے حوالے سے آصف زرداری نے صدر کی حیثیت سے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے خزانے کو 3 ارب سے زائد کا نقصان پہنچایا، اس کیس میں آصف زرداری، بیٹے اور چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول زرداری، فرنٹ مین یونس قدوائی و ملوث دیگر بینک افسران کیخلاف نیب ریفرنس دائر کیا جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جعلی بینک اکاؤنٹس سے مستفید ہونے والے بلاول اور آصف زرداری ہیں۔ آصف زرداری پارک لین کمپنی کے مالک ہیں۔ پارک لین کمپنی کی فرنٹ کمپنی پارتھنون تھی، آصف زرداری اور زرداری گروپ نے 9 ارب 52 کروڑ کا کمیشن لیا، حالانکہ یہ کوئی معقول کاروبار نہیں کرتا۔ سابق صدر اوپل جے وی سے غیر قانونی فائدہ لینے کا معاملہ تسلیم کر چکے ہیں۔ آصف زرداری نے غیر قانونی تعمیرات بھی کرائیں، بطور صدر توشہ خانہ کیلئے اپنے نام پر درآمد کردہ گاڑیوں کی ڈیوٹی ادائیگی کیلئے بھی جعلی اکاؤنٹس استعمال کئے۔ درآمد کی گئی بلٹ پروف گاڑیاں آصف زرداری کے نام پر رجسٹرڈ ہیں، لیکن انہیں اثاثوں یا کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیا گیا، ان کی ادائیگی مرحومین کے اکاؤنٹ سے ہوئی۔ اومنی گروپ کا ڈنمارک سے خریدا گیا ساڑھے 25 لاکھ ڈالر مالیتی طیارہ بھی آصف زرداری کے استعمال میں رہا۔ آصف زرداری کیلئے اومنی نے جعلی اکاؤنٹس سے 90 لاکھ ڈالر مالیتی ہیلی کاپٹر خریدا۔ بلاول کیلئے بلٹ پروف ٹرک کی ادائیگی بھی جعلی اکاؤنٹس سے ہوئی۔ رپورٹ میں آصف زرداری کے امریکہ، برطانیہ، دبئی ودیگر ممالک میں موجود کئی اثاثوں کے شواہد بھی پیش کئے گئے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ منی لانڈرنگ سے بھجوائی گئی رقوم غیر قانونی طور پر سرکاری زمین کی الاٹمنٹ کے ذریعے حاصل کی گئی، ایک ارب کی کرپشن کے جے وی اوپل معاملے میں فریال اور آصف زرداری ملوث ہیں اور اس مقصد کیلئے سندھ حکومت کو استعمال کیا گیا۔ جے آئی ٹی نے معاملہ نیب کے سپرد کرنے اور کرپشن کی رقم کی وصولی کیلئے سفارش کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ شواہد سے لگتا ہے کرپشن کی رقم فریال تالپور کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوتی رہی ہے، یہ وہی اکاؤنٹ تھا، جسے فریال زرداری گروپ کی ڈائریکٹر کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں۔ کرپشن کی رقم سے مختلف اثاثے خریدے گئے، جو ظاہر نہیں کئے گئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ موجودہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے صوبائی وزیر خزانہ، سندھ بینک کے صدر و سی ای او بلال شیخ سے مل کر مقررہ حد سے زیادہ 24 ارب 94 کروڑ روپے اومنی گروپ اور اس کی کمپنیوں کو بطور قرض دی، یہ معاملہ بھی نیب کے سپرد کیا جائے۔ رپورٹ کے اس حصے میں ٹرالرز کی خریداری اور بیمار صنعتوں کی بحالی سمیت مختلف معاملات میں کی گئی اربوں کی ادائیگیوں کے شواہد پیش کئے گئے۔ رپورٹ کے مطابق آصف زرداری کی ایما پر مراد علی شاہ نے بطور وزیر خزانہ اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اومنی گروپ کو7 ارب 19 کروڑ روپے کی سبسڈی دی۔ کلفٹن میں مندر اور لائبریری کیلئے مختص رفاہی پلاٹ آصف علی زرداری کو فائدہ پہنچانے کیلئے سابق وزیراعلیٰ نے کے ڈی اے و ریونیو حکام کی ملی بھگت سے اہم افراد کو الاٹ کئے۔ پاکستان اسٹیل مل کی 362 ایکڑ زمین نجی بلڈرز کو الاٹ کی گئی، اس کام میں کے ڈی اے، ایس بی سی اے اور ریونیو کے حکام بھی ملوث رہے۔ غیر قانونی الاٹ اراضی میں گلستان جوہر کی 7 ایکڑ اراضی آصف زرداری کی فرم پنک ریذیڈنسی کو الاٹ کی گئی۔ کراچی ایئر پورٹ کے قریب 31 ایکڑ قیمتی اراضی آصف زرداری کی فرم العین ہولڈنگ کو دی گئی۔ کراچی کے مختلف علاقوں میں موجود کئی ایکڑ قیمتی زمین آصف زرداری کی مختلف فرمز کو الاٹ کی گئی، جس میں کئی اہم شخصیات ملوث دکھائی گئی ہیں۔ تھرکول پروجیکٹ کے حوالے سے مختلف ٹھیکیداروں سے جعلی اکاؤنٹس سے اربوں کی رشوت لی گئی، جس سے 40 ارب کے فنڈز کا غلط استعمال ہوا، اس معاملے میں بھی وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ملوث ہیں، جو آصف زرداری کی ایما پر ٹھیکے جاری کئے۔ رپورٹ میں جے آئی ٹی نے ایف آئی اے میں انسداد منی لانڈرنگ یونٹ کے قیام کی سفارش کی ہے۔ ادھر سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں چیف جسٹس کی سربراہی میں 2 رکنی بنچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی اور اس موقع پر عدالتی حکم پر کمرہ عدالت میں پروجیکٹر لگا کر جے آئی ٹی رپورٹ کا خلاصہ چلایا گیا۔ عدالت نے اومنی گروپ کے مالکان کی جائیدادیں منجمد کرنے کا حکم دیدیا ہے اور سابق صدر آصف زرداری کو نوٹس جاری کر کے 31 دسمبر کو جواب طلب کر لیا۔ جے آئی ٹی کے سربراہ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے احسان صادق نے عدالت کو بتایا کہ کراچی اور لاہور بلاول ہاؤس کے پیسے جعلی اکاؤنٹس سے ادا کئے گئے۔ بلاول ہاؤس لاہور کی اراضی زرداری گروپ کی ملکیت ہے۔ جعلی بینک اکاؤنٹس سے آصف زرداری کے ذاتی اخراجات، بلاول ہاؤس کے کتے کے کھانے، صدقے کے 28 بکروں کی ادائیگی کی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اراضی گفٹ کی گئی تو پیسے کیوں ادا کیے گئے، کیا گفٹ قبول نہیں کیا گیا تھا، جس پر سربراہ جے آئی ٹی نے بتایا کہ زرداری گروپ نے53 ارب 40کروڑ کے قرضے لئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا ایان علی کہاں ہے، کیا وہ بیمار ہو کر پاکستان سے باہر گئیں، کوئی بیمار ہو کر ملک سے باہر چلا گیا تو واپس لانے کا طریقہ کیا ہے۔ اس موقع پر ایف آئی اے نے عدالت سے ایسے تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے کی استدعا کی، جس پر چیف جسٹس نے کہا آپ وزارت داخلہ کو درخواست دیں، ای سی ایل سے متعلق وہ فیصلہ کریں گے۔ چیف جسٹس نے جے آئی ٹی رپورٹ فریقین کو دینے کا حکم دیا اور آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک کو کہا کہ رپورٹ پر آپ جواب جمع کرائیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے اومنی گروپ کی جائیدادیں کیس کے فیصلے سے مشروط کرتے ہوئے کہا کہ یہ جائیدادیں ضبط کی جائیں گی۔ چیف جسٹس کو بتایا گیا کہ ڈنشا نامی شخص آصف زرداری کا فرنٹ مین ہے۔ عدالت کو مزید بتایا گیا کہ آصف زرداری کی ہمشیرہ فریال تالپور کے اکاؤنٹ میں ایک ارب 20 کروڑ روپے گئے، جس سے لاہور میں بلاول ہاؤس اور ٹنڈوالٰہ یار میں زمین خریدی گئی۔ عدالتی حکم پر اومنی گروپ کی جائیدادوں کا تخمینہ لگایا گیا تو اب قیمت کم نکلی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قرض کے لیے جائیدادوں کی قیمتیں بڑھا دی گئیں۔ برتھ ڈے، پاسپورٹ فیس، ایمرجنسی لائٹس کا بل بھی اومنی گروپ سے دیا گیا؟ جس پر جے آئی ٹی سربراہ نے کہا یہ ہر بار کمپنی تبدیل کر کے ادائیگیاں کرتے رہے، پہلے یہ 23 کمپنیاں تھیں۔ 2008 سے 2018 تک گروپ 83 کمپنیاں پر مشتمل تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ بلاول کے لنچ کا بل 15 ہزار روپے بڑی رقم نہیں، لیکن یہ رقم اومنی گروپ سے کی گئی، ممکن ہے وہ اس کے شیئر ہولڈرز ہوں۔ جے آئی ٹی سربراہ نے بھی کہا کہ ہو سکتا ہے وہ شیئر ہولڈر ہوں اور بعد میں ظاہر کر دیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا اب استغاثہ کو نہیں ملزمان کو خود ثابت کرنا ہوگا۔ یہ وہ پاکستان نہیں جو پہلے تھا، جہاں سرکاری زمینوں کی بندر بانٹ کی جاتی تھی، اگر کوئی پیمپر میں ہے تو اس کے ساتھ ہی جائے گا۔ زرداری اور بلاول کے گھر کے خرچے بھی یہ کمپنیاں چلاتی تھیں اور ان کے کتوں کا کھانا اور ہیٹر کے بل بھی کوئی اور دیتا تھا۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلاول ہاؤس کا ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ کا ماہانہ خرچہ اومنی کی کمپنیوں سے ادا کیا جاتا تھا۔ کراچی اور لاہور کے بلاول ہاؤسز کی تعمیر کیلئے بھی جعلی اکاؤنٹس سے رقوم منتقل ہوئیں۔ اس سے قبل چیف جسٹس نے آصف زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک سے مکالمے کے دوران کہا تھا کہ اربوں روپے کے کھانچے ہیں، معاف نہیں کریں گے۔ ’’چیف جسٹس نے اومنی گروپ کے مالکان کے وکلا منیر بھٹی اور شاہد حامد کے ساتھ مکالمے کے دوران کہا کہ لگتا ہے اومنی گروپ کے مالکان کا غرور ختم نہیں ہوا، قوم کے اربوں روپے کھا گئے اور پھر بھی بدمعاشی کر رہے ہیں، لگتا ہے انہیں اڈیالہ جیل سے کہیں اور شفٹ کرنا پڑے گا’’۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انور مجید کے ساتھ اب کوئی رحم نہیں، آپ وکیل ہیں، آپ نے فیس لی ہوئی ہے، آپ کو سنیں گے، لیکن فیصلہ ہم نے کرنا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment