بےنظیر یونیورسٹی لیاری میں غیرقانونی بھرتیوں کو تحفظ دینے کی تیاری

کراچی (رپورٹ : عبداللہ ہاشمی )بے نظیر بھٹو شہید یونیورسٹی لیاری میں غیر قانونی تعینات اساتذہ کیخلاف کارروائی کے بجائے تھرڈ ڈویژن پاس لیکچرار بھرتی کر لیا گیا ۔یونیورسٹی انتظامیہ 17گریڈ ودیگر اعلی عہدوں پر تعینات افسران کے خلاف تحقیقات سے گریز اں ہے ۔ وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ بدانتظامی روکنے میں ناکام ہوگئے ۔ماضی میں سیاسی دباؤ اور گینگ وار کی مداخلت کو بنیا د بنا کر یونیورسٹی میں دھڑلے سے درجنوں غیر قانونی بھرتیاں کی گئیں جن کے خلاف نیب میں تحقیقات چل رہی ہے‘ذرائع نے بتایا کہ حالیہ بھرتی میں بھی حسب سابق قواعد کے بر خلاف تعیناتیاں کی گئی ہیں‘جنہیں اب سنیڈیکٹ سے منظور کروانے کی تیاری کی جارہی ہے ‘معلوم ہوا ہے کہ اس بارتھرڈ ڈویژن پاس عرفان سولنگی کو لیکچرار بھرتی کیا گیا ہے قبل ازیں شگفتہ نامی خاتون کوبھی تھرڈڈویژن ہونے کے باوجود انگلش کی لیکچرار بھرتی کیا گیا تھا ‘ان کے خلاف بھی وائس چانسلر کو ثبوت فراہم کیے گئے تاہم کوئی کارروائی نہیں ہوئی مذکورہ خاتون اس وقت شعبہ انگریزی کی سربراہ کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں اور جامعہ سے سے ایم فل بھی کررہی ہیں‘ذرائع نے بتا یا کہ شگفتہ پروین نے جو سند جمع کرائی تھی وہ مشکوک نکلی ‘انہوں نے مارکس شیٹ میں تھرڈ کو کاٹ کر سیکنڈ لکھا ‘اسی طرح حاصل کردہ نمبر 448کے بجائے 498 کئے اور سفارش کی بنیاد پر بھرتی ہونے میں کامیاب ہوگئیں‘ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ معاملے پر وائس چانسلر نے اب تک کوئی اقدام نہیں کیا ‘اسی طرح گزشتہ بھرتیوں میں اسسٹنٹ رجسٹرار محسنہ سکندر کی تعیناتی کے دوران جمع کرائے گئے سرٹیفکیٹ بھی جعلی نکلے جس میں انہوں نے دو ایسے ادارے کا تجربہ سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا جس کا کوئی وجود ہی نہیں ‘واضح رہے کہ جعلی ڈگریاں اور غیر قانونی تعیناتی کے خلاف نیب تحقیقات میں وائس چانسلر نے محسنہ سکندر کو فوکل پرسن مقرر کررکھا ہے ۔ذرائع نے بتا یا کہ محسنہ سکندر کے شوہر رشید ملاح کے خلاف نیب تحقیقات کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں گریڈ 20میں ڈائریکٹر فنانس کا دستخطی اختیار دے رکھا ہے ۔ انہیں ڈپٹی رجسٹرار بھی خلاف ضابطہ تعینات کیا گیا تھا ، وہ یونیورسٹی میں غیر قانونی طورپر اکاؤنٹ افسربھرتی ہوئے تھے ۔ان کی دستاویزات میں اسسٹنٹ رجسٹرار نے جعل سازی کی تھی جنہوں نے اسکروٹنی کمیٹی کی رکن کی حیثیت سے ٹمپرنگ کرتے ہوئے تجربےکا جعلی سرٹیفکیٹ منظور کیا تھا۔ ذرائع سے معلوم ہوا کہ آڈٹ افسر نے سابق وائس چانسلر کو 5جون 2015کوریکارڈ کے مطابق وضاحت کی تھی کہ عبدالرشید ملاح شناختی کارڈ نمبر 42201-3249663-5کو گریڈ 16میں 2سال کے کنٹریکٹ پر11فروری 2008کو بطور اسسٹنٹ آڈٹ افسر بھرتی کیا گیا تھا ‘مکتوب میں کہا گیا کہ انہیں نوکری سے برخاست کیا جائے ۔اے جی سندھ کی اس وضاحت کے باوجود ان کو گریڈ 17میں بھرتی کیا گیا اور اب وہ قائمقام ڈائریکٹر فنانس کا چارج سنبھالے ہوئے ہیں ۔ذرائع نے بتا یا کہ یونیورسٹی میں 18گریڈ کی اسامیوں پر بھی غیر قانونی تعیناتیاں کی گئیں ‘اسسٹنٹ انجینئر کی اسامی کیلئے درخواست دینے و الے کو ایکسین کی پوسٹ دے دی گئی اور میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں اور تھرڈ ڈویژن خاتون کو لیکچرار تعینات کیا گیا‘ سپرنٹنڈنٹ کی جگہ پی اے ٹو وائس چانسلر کی پوسٹ پر تعیناتی کی گئی۔ دوسری جانب برطرف شخص کو اسسٹنٹ کنٹرولر کی پوسٹ سونپی گئی ‘7افسران کو پوسٹ اناؤنس کئے بغیر تعینات کردیا گیا سابق وائس چانسلر ڈاکٹر آر اے شاہ اور رجسٹرار ڈاکٹر محبوب شیخ اور پھر ڈاکٹر اختر بلوچ کے دور میں بھی اشتہار شائع کرائے بغیر من پسند افراد کو نواز ا گیا ‘ذرائع نے بتا یاکہ 3گزیٹڈ پوسٹوں پر تعیناتیاں کی گئیں ،جن میں اسسٹنٹ رجسٹرار اکیڈمک صبا مغل ‘اسسٹنٹ ڈائریکٹر فنانس واجہ کیف اور اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر گلناز نعیم (اسلامیات )شامل ہیں ‘ذرائع نے بتا یا کہ ڈاکٹر گلناز کو جس شعبہ میں تعینات کیا گیا وہ مضمون پڑھایا ہی نہیں جاتا ۔جبکہ 4نان گزیٹڈ اسامیوں پر 2سب انجینئرز شاہد سوریو اور اسما اطہر ‘ہارٹیکلچر میں مظہر علی اور شازیہ انیس پی اے ٹو ڈائریکٹر فنانس تعینات کیا گیا ‘ذرائع نے بتا یا کہ مظہر ابڑو کو گریجویشن کی سند پر شعبہ کمپیوٹر سائنس میں لیکچرار تعینات کیا گیا جنہوں نے بعد میں ایم ایس سی کی سند بھی جمع کرائی ۔شازیہ شاہ نے ایم اے انگریزی میں تھرڈ ڈویژن حاصل کی انہیں بھی خلاف ضابطہ لیکچرا رتعینات کردیا گیا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment