اے جی آفس- افسران کیخلاف غیر قانونی بھرتیوں -ترقیوں کی تحقیقات

کراچی(رپورٹ:نواز بھٹو)اکاؤنٹنٹ جنرل آفس سندھ میں20اعلیٰ افسروں کی جعلی و غیر قانونی بھرتیوں اور ترقیوں کیخلاف نیب تحقیقات آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔نیب کومختلف سینئر آڈیٹرزکی تعیناتی کے بارے میں ریکارڈفراہم کر دیا گیا ہے ۔اے جی سندھ کا کہناہے کہ افسران سے متعلق نیب حکام نے ان محکموں سے بھی ریکارڈ مانگا ہے ،جہاں سےیہ اکاؤنٹنٹ جنرل آفس میں تھے۔دوسری جانب نیب نے مطلوبہ ریکارڈ و معلومات کی عدم فراہمی پر محکمہ بلدیات پہنچ کر ان وارڈ رجسٹر تحویل میں لے لیا ۔تفصیلات کے مطابق انتظامی تبدیلیوں اور زیر التوا معاملات کے جائزہ لینے کے بعد نیب کراچی متحرک ہو گیا ہے۔کراچی کے ضلع ملیر و اسکیم 33میں ہزاروں ایکڑ زمین کی غیر قانونی الاٹمنٹ کی چھان بین تیز کر دی گئی ہے۔ نیب حکام نےیاد دہانی خطوط ارسال کئے جانے کے باوجود مختلف محکموں کی طرف سے ریکارڈ کی عدم فراہمی پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ذرائع کے مطابق نیب نے محکمہ انصاف، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، محکمہ ورکس اینڈ سروسز اور محکمہ سروسز کو بذریعہ لیٹر فوری ریکارڈ مانگ لیا ہے۔ریکارڈ کی عدم فراہمی پر نیب حکام گزشتہ روز محکمہ بلدیات کے دفتر پہنچ گئے ،جہاں انہیں بتایا گیا کہ محکمے کو 16دسمبر کو جاری کردہ لیٹر21دسمبر کو بھی موصول نہیں ہوا تھا۔ اس پر نیب محکمہ بلدیات کے پورے ان وارڈ رجسٹر کی تصدیق شدہ کاپی حاصل کی ۔ نیب کراچی کی طرف سے20دسمبر کو سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن کو ایک لیٹر NABK 20180905140282/10/IW-2/ CO-A/T-1/2018/5710 ایک اہم ادارے کے خلاف ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ادھر نیب حکام کی اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ کے دفتر میں جعلی بھرتیوں و ترقیوں کی اپریل سے جاری تحقیقات آخری مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں۔ریکارڈ کی چھان بین بھی مزید تیز کر دی گئی۔ نیب نے اکاؤنٹنٹ جنرل آفس سےلیٹر نمبر NABK20180524128193/39/ IW-2/CO-A/T-2/NAB(K)/2018/3823 اور اس سے قبل متواتر لکھے گئے خطوط میں اے جی آفس سے غیر قانونی بھرتی 20افسران کا مکمل ریکارڈ مانگا۔ موصولہ ریکارڈ کے جائزے سے یہ انکشاف ہوا کہ تحقیقات کی زد میں آئے20افسر اے جی سندھ کے کسی شعبے کے ملازم ہی نہیں۔کچھ افسران نے بھائیوں سمیت غیر قانونی بھرتیاں کیں اور انہیں بعد میں محکمے میں ضم کر دیا گیا۔ذرائع کے مطابق نیب نے 20افسران کی بھرتی اور تعیناتی کا مکمل ریکارڈ طلب کر تے ہوئے سوال نامہ اور پروفارما بھی جاری کیا ہے۔ ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ اے جی آفس میں تعینات ایک اعلیٰ افسر نے اسکول کلرک کا سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ کسی بھی محکمے کا ملازم نہ ہونے کے باوجود اسے سینئر آڈیٹر تعینات کیا گیا۔ ریکارڈ سے اس بات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اے جی آفس کے حکام نے جعلی بھرتیاں کیسے کیں اور انہیں اہم پوسٹوں پر کیسے تعینات کیا گیا۔ نیب کی جانب سے اکاؤنٹس آفیسر محمد عمر غوری، سینئر آڈیٹرز شفیق احمد خان ،اعجاز علی کانجو و محمد زبیر سے بھی ریکارڈ مانگا گیا ۔ اس سلسلے میں رابطہ کرنے پر اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ غفران میمن نے ‘‘ امت’’ کو بتایا کہ 20افسران سے متعلق ریکارڈ مختلف اوقات میں مانگا گیا ۔یہ معاملہ میرے تعیناتی سے پہلے کا ہے ۔ہم نیب حکام کو ریکارڈ فراہم کر دیا گیا ہے ۔گزشتہ ایک ماہ سے مزید ریکارڈ نہیں مانگا گیا۔جن افسران کے خلاف تحقیقات جاری ہے وہ 20سال پرانے ملازم ہیں ،جو مختلف محکموں سے اے جی آئے اور انہیں۔اب تک کسی افسر کے خلاف انتظامی کارروائی نہیں ہوئی۔ نیب الزام درست ثابت ہوا تو کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ جہاں تک میں میں جانتا ہوں ،یہ سیاسی معاملہ ہے،ہم نے نیب سے مکمل تعاون کیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment