زرداری کو بچانے کیلئے سی آئی اے فرنٹ میں زلمے خلیل سرگرم

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) نواز شریف کے بارے میں احتساب عدالت کا فیصلہ تو آچکا۔ اب آصف زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے مقدمے کا فیصلہ ہونا ہے۔ گزشتہ روز جے آئی ٹی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی، تاہم اس کی بنیاد پر عدالت نے گرفتاری کا فیصلہ نہیں دیا اور اگلی تاریخ دی۔ باخبر ذرائع اس بارے میں ایک اور کہانی سناتے ہیں۔ فیصلہ ساز حلقوں کے قریب رہنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ زرداری کی گرفتاری کے حوالے سے ابھی کچھ کہنا قبل ازوقت ہے، کیونکہ ان کی پشت پر دو ایسی طاقتوں کے نمائندے کھڑے ہو گئے ہیں، جنہیں نظرانداز کرنے کے لیے شیر کا دل اور چیتے کا کلیجہ چاہئے۔ ذریعے کے بقول صدر ٹرمپ کے خصوصی نمائندہ برائے افغان امور زلمے خلیل زاد زرداری کے سفارشی ہیں۔ زلمے نے اس حوالے سے بعض اعلیٰ حکام سے ملاقات میں زرداری پر ہاتھ ہلکا رکھنے کی سفارش کی ہے۔ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ زرداری کی طرح زلمے کی مستقل سرپرست بھی سی آئی اے ہے۔دونوں حضرات بہت طویل عرصے سے امریکی خفیہ ادارے سے احکامات وصول کرتے رہے ہیں۔ زلمے ماضی میں کولمبیا یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر تھے۔ وہ امریکی وزارت خارجہ کی افغان ڈیسک کے غیر سرکاری مشیر بھی رہے۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کے دنوں میں زلمے پاکستان اور افغانستان آتے رہے۔ وہ عموماً کسی نہ کسی کا پیغام لے کر آتے تھے، لیکن پاکستانی حکام اور افغان مجاہدین میں سے کوئی انہیں لفٹ نہیں کراتا تھا۔ جس پر وہ خاصے خفا بھی ہوا کرتے تھے، لیکن چونکہ سی،آئی، اے کے نوکر تھے۔ اس لیے ہر بار حکم حاکم پر آتے رہے اور ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مار کر جاتے رہے۔ بیوی ان کی خالص امریکی عیسائی خاتون ہیں۔ شیرل برنارڈ امریکی وزارت خارجہ کی ملازم تھیں اور 2007میں انہوں نے ایک اہم پالیسی پیپر تیار کیا تھا، جو زلمے کی مدد اور رہنمائی میں بنایا گیا تھا۔ یہ پیپر افغانستان اور دنیا بھر میں مسلمانوں کی انقلابی اور جہادی جماعتوں سے نمٹنے کی حکمت عملی پر مشتمل تھا۔ آنے والے دنوں میں یہ امریکی خارجہ پالیسی کا بنیادی پیپر بنا۔ زلمے اگرچہ افغانستان سے تعلق رکھتے تھے۔ لیکن اپنے آبائی ملک سے ناطہ نصف صدی پہلے توڑ کر امریکہ کو اپنا مستقل وطن بنا لیا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی تو زلمے کی اہمیت بڑھی۔ سابق پروفیسر ایک بار پھر خبروں کی زد میں آگئے اور امریکی مفادات پورے کرنے کی مشن پر چل پڑے۔ زلمے کے نام یا افغان تعلق سے متاثر نہ ہوں۔ یہ سب کیموفلاج ہے۔ وہ سرتاپا امریکی ہیں۔ اندر سے باہر تک اور اوپر سے نیچے تک امریکی مفادات کے پہریدار۔ زلمے اور آصف زرداری کے درمیان راہ و رسم تب بڑھے، جب زرداری علاج کی غرض سے امریکہ گئے تھے۔ وہاں سی،آئی، اے کے متعلقہ شعبے سے ربط و ضبط بڑھا اور زرداری کئی ایسے خفیہ مقامات پر پائے گئے، جہاں جانے کی اجازت کسی مسلمان کو نہیں دی جاتی تھی۔ ان میں امریکی یہودیوں کے بعض مخصوص اور چنیدہ پروگرامات بھی تھے۔ نیویارک میں مقیم ایک پاکستانی صحافی نے اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹر میں اپنے تعلقات کا استعمال کر کے ایسے ہی ایک پروگرام میں شرکت کا خصوصی دعوت نامہ حاصل کیا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ پروگرام میں بے نظیر اور زرداری دونوں موجود تھے۔ وہ دونوں البتہ مذکورہ صحافی کو دیکھ کر پریشان ہو گئے اور زرداری نے مذکورہ صحافی سے وعدہ لیا کہ ان کی شرکت رپورٹ نہیں کریں گے اور نہ کسی کو بتائیں گے۔ مذکورہ صحافی کے بقول وہ پروگرام صرف ان شخصیات کے اجتماع پر مبنی تھا۔ جو دنیا بھر میں یہودی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد بھی یہودی مفادات کے مستقبل کے لیے چینلجز پر غور کرنا تھا۔ مذکورہ صحافی آج بھی نیویارک میں موجود ہیں۔ اور اس واقعے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ خیر آمدم برسر مطلب۔ امریکہ میں زرداری کے ظاہر اور خفیہ روابط آج کل سرگرم ہیں اور وہ انہیں گرفتاری یا گرفتاری کی صورت میں فوری رہائی دلانے کے لیے پوری کوشش کررہے ہیں۔ ذرائع کے بقول متحدہ عرب امارات کے بعض اعلیٰ حکام بھی ان کوششوں میں پیچھے نہیں، جو زرداری کو بچانے کے لیے کی جارہی ہیں۔ دبئی اور بعض دیگر ریاستوں کے حکمرانوں کے ساتھ بھٹو فیملی کے تعلقات راز نہیں ہیں۔ بے نظیر کے والد ذوالفقار علی بھٹو اور مرحوم شیخ زائد بن سلطان النہیان کے درمیان دانت کاٹی روٹی جیسی دوستی تھی۔ جو ان کے بعد ان کی اولادوں میں منتقل ہوئی۔ سو متحدہ عرب امارات کے بعض اعلیٰ حکام زرداری سے اپنی دوستی نبھانے کے لیے سرگرم ہیں اور یہ تو آپ جانتے ہیں کہ امارات نے پاکستان کو تین ارب ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے، اب جو ڈالر دیتا ہے۔ اس کی بات تو ماننی پڑتی ہے، لیکن اس کھیل میں اصل اڑچن یہ ہے کہ مقتدر حلقوں اور فیصلہ ساز قوتوں میں اس ایشو پر دو راتیں پائی جاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ زرداری کو فی الحال نہ چھیڑا جائے۔ البتہ دباؤ بڑھا کر میڈیا ٹرائل کیا جاتا رہے، تاکہ انہیں ملک سے باہر جانے پر مجبور کر دیا جائے اور دوسری یہ کہ نواز شریف کے بعد اگر زرداری کا احتساب نہ ہوا تو عوام میں یہ تاثر جنم لے گا کہ احتساب کا عمل جانبدارانہ اور غیر شفاف ہے۔ ذریعے کے بقول دوسری رائے میں اگرچہ وزن زیادہ ہے، لیکن پہلی رائے رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر زرداری کو گرفتار کر لیا گیا تو دونوں بڑی جماعتیں ایک ہو جائیں گی اور حکومت کا چلنا مشکل کر دیں گی۔ اس لیے شریف خاندان کو پہلے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔ اس کے بعد ہی قدم آگے بڑھایا جائے۔ درمیان میں رخ موڑ لینے سے پہلے کے خلاف کارروائی بھی مشکل ہو جائے گی۔ ذرائع کے بقول فیصلہ تو ابھی نہیں ہوا، لیکن فی الحال بے نظیر کی برسی کے جلسے تک معاملات ٹھنڈے رکھنے پر اتفاق ہوا ہے۔ ذریعے کے بقول ایک بار زرداری کی گرفتاری کا حتمی فیصلہ ہو گیا تو پھر کسی سفارش پر دھیان نہیں دیا جائے گا اور نہیں ہوا تو سفارش کرنے والوں کو ممنون احسان کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی زرداری سے کئی کڑی شرائط بھی منوائی جا سکتی ہیں۔

Comments (0)
Add Comment