اسلام آباد(رپورٹ :اویس احمد)ملک کے22 بڑے نجی اسکول اور اسکول چینز سالانہ تقریباً 20 فیصد ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ یہ انکشاف آڈیٹر جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق سالانہ 10 سے 17 ارب روپے کی سالانہ آمدن ظاہر کرنے والے اسکول ٹیکس بچانے کے لیے اپنے اخراجات بڑھا چڑھا کر ظاہر کرتے ہیں اور ہر ممکن حربہ استعمال کرتے ہوئے آمدن کم از کم ظاہر کی جاتی ہے۔ آمدن کم ظاہر کرنے کے لیے ڈائریکٹرز ، شراکت دار اور سی ای اوز آمدن میں حصہ لینے کی بجائے اپنے منافع کا حصہ غیر معمولی طور پر بڑی تنخواہوں کی صورت میں وصول کرتے ہیں۔ سفری اور تفریحی اخراجات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور اثاثوں کی قدر میں کمی ظاہر کی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 22 نجی تعلیمی اداروں اور چین اسکولوں کی جانب سے ٹیکس کی مد میں سالانہ اوسطاً 26 فیصد ٹیکس ادائیگی کی جاتی ہے، حالانکہ حقیقی آمدن کے اعتبار سے ان کے ذمہ حقیقی ٹیکس 45 فیصد تک بنتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسکولوں کے اخراجات میں اضافہ ظاہر کرنے کا بڑا ذریعہ سی ای اوز اور ڈائریکٹرز کو غیر معمولی طور پر بڑی تنخواہیں دینا ہے اور کئی ڈائریکٹرز، سی ای اوز اور شراکت دار ڈیڑھ کروڑ روپے تک تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔اس کے علاوہ اسکول مالکان اسکولوں سے حاصل شدہ آمدن سے اسکولوں میں سرمایہ کاری کی بجائے اپنی ہی کمپنیوں کو قرض دیتے ہیں اور اس کے ذریعے بھی اسکولوں کے اخراجات میں اضافہ ظاہر کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں اے جی پی نے واضح طور پر لکھا ہے کہ تقریباً تمام آڈٹ شدہ اسکول اپنا منافع چھپانے کے لیے مختلف حربے استعمال کرتے پائے گئے ہیں۔ اسکولوں کی جانب سے انتہائی کم منافع ظاہر گیا ہے ، جو بعض اسکولوں کی جانب سے محض 2 فیصد سالانہ ظاہر کیا گیا ہے ، جبکہ مجموعی طور پر نجی تعلیمی صنعت کا منافع ساڑھے 5 فیصد ظاہر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق طلبہ و طالبات سے لاکھوں روپے سالانہ فیس وصول کرنے والے اسکولوں کی جانب سے فی طالب علم اوسط ًماہانہ آمدن محض 746 ظاہر کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسکولوں کے آڈٹ کے دوران ثابت ہوا ہے کہ تمام اسکول اپنی فیسوں میں بلاجواز اضافہ کرتے ہیں۔ اکائونٹس کے جائزے سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ اضافہ مہنگائی کے باعث نہیں کیا جاتا، بلکہ اسکول مالکان اپنی آمدن میں اضافے کے لیے فیسوں میں اضافہ کرتے ہیں۔جبکہ آڈیٹر جنرل نے رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ نجی اسکولوں کی ٹیکس چوری روکنے کے لیے فیس سمیت ہر قسم کا لین دین بینکوں کے ذریعے کرنے کا پابند بنایا جائے، ڈائریکٹرز اور سی ای اوز کی تنخواہوں کی حد مقرر کی جائے، فیسوں کی ایڈوانس وصولی پر بھی پابندی عائد کی جائے ۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں فیس کی وصولی پر مکمل پابندی ہونی چاہیے۔ تاہم 12 ماہ کی فیسوں کو 10 ماہ پر تقسیم کرنے سے مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے جس سے والدین پر ایڈوانس فیسوں کی وصولی کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ جبکہ کیٹیگری ون اور ٹو کے اسکولوں کے اچانک آڈٹ کا نظام نافذ کیا جائے۔جبکہ آڈیٹرجنرل کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ پیرنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن ہر اسکول کے لیے لازمی ہونی چاہیے اور فیسوں میں اضافے، شکایات کے ازالے اور بڑی سرمایہ کاری جیسے میں اہم معاملات میں والدین اور اساتذہ کو اہم کردار دینا چاہیے۔دریں اثنا سپریم کورٹ احکامات کےباوجوداکثر اداروں نےآڈٹ حکام کوریکارڈ فراہم نہیں کیا ۔