ٹارگٹ کلنگ پر برطانیہ سے رابطے کا فیصلہ

کراچی (اسٹاف رپورٹر) کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ واقعات میں بیرون ملک بالخصوص لندن میں بیٹھے سازشی عناصر کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے بعد اس ضمن میں برطانیہ سے رابطے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ بدھ کے روز وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں بتایا گیا کہ لندن سے نفرت انگیز تقاریر کی گئی ہیں، جس میں ایک جماعت کے کارکنوں کو ان کے مخالفین کو قتل کرنے کے لیے اُکسایا جا رہا ہے، جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے اور اسے سفارتی کاوشوں کے ذریعے روکنا ہے۔ انہوں نے چیف سیکریٹری ممتاز علی شاہ کو ہدایت کی کہ وہ اسلام آباد میں وزارت خارجہ سے بات کریں، تاکہ وہ اس مسئلے کو برطانوی ہائی کمیشن کے ساتھ اٹھائیں۔ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ شہر کے لوگ، پولیس، رینجرز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کراچی میں امن کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، جسے رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ امن و امان سے متعلق ہنگامی اجلاس میں چیف سیکریٹری سندھ ممتاز شاہ، وزیراعلیٰ سندھ کے مشیر برائے اطلاعات مرتضیٰ وہاب، ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید، آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے صوبائی سربراہان، ڈی آئی جی ساؤتھ جاوید عالم اوڈھو اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ گزشتہ 6 ہفتوں کے دوران شہر میں دہشت گردی کے 6 واقعات رونما ہوئے ہیں، جو کہ ایک سنگین اور الآرمنگ بات ہے اور ناقابلِ برداشت ہے، لہٰذا قانون نافذ کرنے والے اداروں بالخصوص پولیس کو چاہیے کہ وہ سیکورٹی کے سخت اقدامات کرے اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنائے۔ انہوں نے کہا کہ 17 نومبر کو لانڈھی میں ایک دھماکہ ہوا، جس میں معصوم انسانی جانیں ضائع ہوئیں، چائنیز قونصلیٹ پر حملہ ہوا، ضلع جنوبی میں ایک گاڑی پر حملہ ہوا، گلستان جوہر میں محفل میلاد میں ایک کریکر حملہ ہوا، پی ایس پی کے کارکن اپنے دفتر میں ہلاک کر دیئے گئے اور اب سابق پارلیمنٹیرین علی رضا عابدی کو قتل کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ان واقعات سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ منتشر دہشت گرد ایک بار پھر منظم ہو رہے ہیں اور ہماری گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ انہوں نے آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ وہ پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ پولیس کے معاملات میں کوئی سیاسی مداخلت نہیں ہو رہی ہے اور بحیثیت محکمہ داخلہ کے انچارج وزیر انہوں نے محکمہ پولیس کو ایک آزاد ادارہ بنایا ہے، مگر ان کے باوجود نتائج تکلیف دہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان 6 واقعات میں سے 3 واقعات ضلع جنوبی میں رونما ہوئے ہیں، لہٰذا ضلع جنوبی کی پولیس کو مزید چوکس اور فعال ہونا چاہیے۔ انہوں نے آئی جی پولیس کو ہدایت کی کہ وہ صوبہ سندھ بالخصوص کراچی کے امن وامان کے حوالے سے روزانہ کی بنیادوں پر رپورٹس انہیں بھیجیں۔ وزیراعلیٰ سندھ کو علی رضا عابدی کے واقعے کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے ڈی آئی جی جنوبی جاوید اوڈھو نے بتایا کہ وہ مقام جہاں پر علی رضا عابدی کو قتل کیا گیا، وہاں سے 5 خول ملے ہیں، یہ خول فارانسک ٹیسٹ کے لیے بھیجے گئے ہیں اور وہاں سے یہ بات پتہ چلی ہے کہ جو پستول استعمال ہوا ہے، وہ پہلے سے زیر تفتیش دیگر چند واقعات میں بھی استعمال ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ علی رضا عابدی کا موبائل فون تحویل میں لے لیا گیا ہے اور اسے ڈی کوڈ کیا جا رہا ہے، تاکہ ان کے پیغامات اور کالز کو تحقیقاتی مقاصد کے لیے چیک کیا جا سکے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں نے وزیراعلیٰ سندھ کو واقعے کے بارے میں بریف کرتے ہوئے سیکورٹی کے چند سخت اقدامات کرنے کی تجویز دی۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ پولیس اور رینجرز نے چند اہم گرفتاریاں کی ہیں اور انہیں یقین ہے کہ علی رضا عابدی کے قاتلوں کی گرفتاری کے حوالے سے جلد اہم شواہد مل جائیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے آئی جی پولیس ڈاکٹر کلیم امام کو ہدایت کی کہ وہ خالصتاً میرٹ کی بنیاد پر پولیس اہلکاروں کی بھرتی شروع کریں۔ پچھلی مرتبہ ہم نے بھرتیاں کی تھیں، اس میں پاکستان آرمی کے ایچ آر کے لوگ بھی شامل کیے گئے تھے۔ انہوں نے آئی جی سندھ کو اس حوالے سے کام شروع کرنے کا کہا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ سیف سٹی پروجیکٹ کے طریقے کار کے کام کو تیز کریں اور انہیں یہ بھی ہدایت کی کہ وہ موٹرسائیکلوں میں ٹریکر اور ان کی فرنٹ سائیڈ پر نمبر پلیٹیں لگانے کے فیصلے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیاگیا کہ گزشتہ دو ماہ کے دوران جیلوں سے رہائی پانے والے مجرمان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھی جائے۔
٭٭٭٭٭
کراچی (اسٹاف رپورٹر) علی رضا عابدی کے قتل میں اجرتی قاتل ملوث ہونے کے اشارے ملے ہیں۔ دوسری جانب گذری پولیس نے مقتول کے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا ہے، جس میں قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے علی رضا عابدی کے قتل میں استعمال ہونے والے اسلحے کا سراغ لگا لیا، جس پستول کی گولی سے علی رضا عابدی قتل ہوا، اسی کے ذریعے 10 دسمبر کو لیاقت آباد کے علاقے 420 ہوٹل کے قریب احتشام ولد انور نامی نوجوان کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ پولیس کے ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ علی رضا عابدی اور احتشام کے قتل کی کڑیاں ملا کر تفتیش کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ دونوں وارداتوں میں 30 بور پستول سے فائرنگ کی گئی، دونوں وارداتوں میں ایک موٹر سائیکل پر سوار پی کیپ لگائے دو ملزمان فائرنگ کر کے موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، جو پتلی جسامت کے اور شکل و صورت سے اردو اسپیکنگ معلوم ہوتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کو پولیس کے سینئر افسر نے بتایا کہ مقتول احتشام جوئے کا اڈہ چلانے والے عرفان عرف کچھی کی سابقہ بیوی سے شادی کرنا چاہتا تھا اور اس کا ملزم کے گھر میں آنا جانا بھی تھا، ملزم عرفان نے اپنی سابقہ اہلیہ کو 9 دسمبر والے روز فون کر کے احتشام کو قتل کرنے کی دھمکی دی تھی اور اگلے ہی روز وہ مارا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ عرفان پہلے احتشام کی گلی میں رہتا تھا اور 8 ماہ پہلے ہی کھڈا مارکیٹ لیاری منتقل ہوا تھا۔ بغدادی کے علاقے میں جوئے کا اڈہ چلانے کے الزام میں گرفتاری و رہائی کے بعد بھی شہر کے مختلف علاقوں میں جوئے کے اڈے پولیس سے چھپ کر چلا رہا تھا۔ ملزم نے 3 شادیاں کر رکھی ہیں جن میں سے ایک سابقہ اہلیہ مقتول احتشام کی گلی میں رہائش پذیر ہے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کہ عرفان پر کرائے کے قاتلوں سے احتشام کو قتل کرانے کا شبہ ہے، کیونکہ وہ اس واقعے کے بعد سے غائب ہے اور اس کے ایران چلے جانے کی اطلاعات ہیں۔ پولیس افسر کا کہنا تھا کہ عرفان کرکٹ میچ پر جوا بھی چلاتا تھا اور اس کے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کارکنان کے ساتھ بھی اچھے مراسم تھے اور وہ اکثر رات کے وقت ان کے ساتھ بیٹھتا تھا، پولیس افسرکا کہنا تھا کہ تحقیقاتی اداروں نے ملزمان کے گرد گھیرا تنگ کردیا اور جلد ہی ملزمان کو گرفتار کرلیا جائیگا۔ دوسری جانب علی رضا عابدی کے گھر پر تعینات سیکورٹی گارڈ کو تحقیقاتی اداروں نے حراست میں لے کر تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔ قدیر کا آبائی تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے اور وہ تقریباً ڈیڑھ سے دو ماہ سے علی رضا عابدی کے گھر پر سیکورٹی کے فرائض انجام دے رہا تھا۔ ایس ایس پی جنوبی پیر محمد شاہ کے مطابق منگل کی شب علی رضا عابدی اپنی کار میں گھر کے پاس پہنچے اور جیسے ہی سیکورٹی گارڈ نے گھر کا دروازہ کھولا تو ایک موٹر سائیکل پر سوار2 دہشت گرد آئے، ایک نے اتر کر ڈرائیونگ سائیڈ سے فائرنگ کی، جس کے بعد دونوں فرار ہوگئے۔ حملے کے وقت سیکورٹی گارڈ گھر میں بھاگ گیا، اگر وہ ایسا نہ کرتا تو اس کی جوابی فائرنگ سے دہشت گرد پکڑے جاسکتے تھے اور کوئی ہلاک یا زخمی بھی ہوسکتا تھا۔ دوسری جانب گارڈ کا کہنا ہے کہ وہ جب سے تعینات ہوا گن چلا کر نہیں دیکھی۔ کمپنی نے کبھی چیک کرنے کا نہیں کہا۔ حملے کے وقت ایک ہاتھ سے دروازہ کھول رہا تھا، گن لوڈ نہیں کرسکا۔ پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے بیان کے مطابق گارڈ قدیر نے بتایا کہ میں روم میں بیٹھا تھا کہ صاحب کی گاڑی دروازے پر پہنچی اور ٹرن لیا، علی رضا صاحب کبھی ہارن نہیں بجاتے، خلاف توقع گاڑی کا ہارن بجا۔ میرے بائیں ہاتھ میں گن تھی، دائیں ہاتھ سے دروازہ کھولنے لگا، دروازے کا ایک حصہ ہی کھولا تھا کہ باہر سے فائرنگ شروع ہوگئی، میں دروازہ چھوڑ کر گن لوڈ کرنے لگا، لیکن بار بار کوشش کے باوجود بھی گن لوڈ نہ ہوئی۔ باہر نکل کر دیکھا تو کوئی نظر نہیں آیا، علی صاحب گاڑی کی سیٹ پر گرے ہوئے تھے اور گردن سے خون نکل رہا تھا۔ گارڈ نے مزید بتایا کہ گن میں 5 راؤنڈ ہر وقت موجود ہوتے تھے۔ میری ڈیوٹی شام 7 بجے سے صبح7بجے ہوتی ہے، میں شام کو آتا تو صبح والا گارڈ روزانہ مجھے گن دے کر جاتا تھا۔ دریں اثنا علی رضا عابدی کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد محکمہ داخلہ سندھ نے ایم کیو ایم پاکستان کے تمام رہنماؤں کی سیکورٹی بڑھا دی جب کہ دفاتر پر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی ہے، سیکریٹری محکمہ داخلہ کے مطابق یہ فیصلہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں کیا گیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment