اسلام آباد۔ لاہور( نمائندہ خصوصی ۔خبرایجنسیاں)چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہاہے کہ یہ ہے نیا پاکستان،یہ میرٹ ہے نئی حکومت کا ،ایسے ملک چلانا ہے آپ نے ،یہ کیسی روایت قائم کی جارہی ہے نئے پاکستان میں ؟،بیوروکریسی کو طاقتور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں،سیاسی وابستگیاں چھوڑدیں۔ چیف جسٹس نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں میرٹ کے برعکس ڈاکٹر کی تقرری کے خلاف کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس پاکستان نے پنجاب حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ ہے نئی حکومت کا میرٹ اور یہ ہے نیا پاکستان۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب ،سیکرٹری ٹو وزیر اعلیٰ اور سیکرٹری صحت کو فوری طلب کرلیا۔دوبارہ سماعت کا آغاز ہونے پر چیف جسٹس نے استفسارکیا سیکرٹری ٹو وزیر اعلی پنجاب کیوں پیش نہیں ہوئے۔سیکرٹری کوآرڈی نیشن نے فاضل عدالت کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے بہاولپورجانا ہے وہ وہاں گئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے کو بینچ میں سماعت کے لیے فکس کر رہے ہیں۔کس نے کس کی سفارش کروائی سب جانتا ہوں۔بیوروکریسی کو طاقتور کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔وزیر اعلی پنجاب کا اس معاملے سے کیا تعلق ہے۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ عدالت معاملے کا جائزہ لے گی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی ہو گی۔ملوث افراد کو جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خدا کا واسطہ ہے سیاسی وابستگیاں چھوڑ دیں۔ سیکرٹری صحت نے کہا کہ ہم اس ٹرانسفر کے آرڈر کو واپس لے لیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اب اس معاملے کو بینچ ہی دیکھے گا اور قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری پنجاب ، سیکرٹری صحت سمیت تمام متعلقہ افسران اور وائس چانسلر نشتر میڈیکل کالج کو آج طلب کرلیا ۔دریں اثناچیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈیموں کی تعمیرکے لیے فنڈریزنگ کرنے کے بعداب یونائیٹڈ کرسچین ہسپتال لاہور کی بحالی کے لیے بھی فنڈجمع کرناشروع کردیااپنی جیب سے ایک لاکھ روپے بھی اداکردیے ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے لاہور یونائیٹڈ کرسچین اسپتال میں سہولیات کی عدم فراہمی پر لئے از خود نوٹس کی سماعت کی ۔ اس دوران چیف جسٹس اور جسٹس اعجاز الاحسن نے اسپتال کے ڈاکٹروں کو سخت الفاظ میں مخاطب کیا ۔عدالت میں اسپتال کی سٹیرنگ کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر جواد پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ یو سی ایچ ہسپتال کو کس نے چلانا ہے، کس طرح یہ ہسپتال چلے گا یا سپریم کورٹ اسے اپنی تحویل میں لے لے۔ڈاکٹر جواد نے جواب دیا کہ یو سی ایچ کی بحالی کیلئے 40 سے 50 کروڑ روپے کی ضرورت ہے، ڈاکٹر جواد نے تجویز دی کہ چھ افراد پر مشتمل سٹیرنگ کمیٹی بنا دی جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ یہ کون ہیں ڈاکٹر پیٹر جے ڈیوڈ؟ ان کے پاس رقم ہے نہیں مگر انا بہت ہے، کہتے ہیں چیف جسٹس نے ہمیں ہسپتال کی بحالی کیلئے کوئی درخواست نہیں کی، یہ لوگ ہوش میں تو ہیں؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ ہے ان کی تعلیم، یہ اس طرح ملک کی بڑی عدالت کی قدر کرتے ہیں؟ ڈاکٹر پیٹر جے ڈیوڈ کی تعلیم یہ سکھاتی ہے انہیں؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یو سی ایچ کا دورہ کیا، نہ وہاں کوئی دوا تھی بس ہسپتال کا نام تھا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یو سی ایچ پر ناجائز قبضے کئے گئے تھے ہم نے واگزار کروائے۔چیف جسٹس نے مخصوص انداز میں کہا کہ میرا تو خیال تھا کہ آپ سب کام کرنے کیلئے کلہاڑیاں لے کر آجائیں گے، چیف جسٹس نے ڈاکٹر پیٹر جے ڈیوڈ پر اظہار برہمی کرتے کہا کہ آپ تو سیاست میں پڑے ہوئے ہیں، اب ایک ہی حل نظر آتا ہے کہ یو سی ایچ کو سٹیرنگ کمیٹی کے حوالے کر دیا جائے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں مخیر حضرات مل جائیں گے اس ہسپتال کو چلانے کیلئے، حکومت بھی 100بیڈ فراہم کرے گی، اتنے سال سے آپ لوگ کیا کرتے رہے ہیں؟ سیاست ہی کرتے رہے ہیں۔ ڈاکٹر پیٹر نے کہا کہ ہماری کمیونٹی میں کرپٹ لوگ بھی ہیں۔سماعت کے اختتام پر چیف جسٹس نے یونائیٹڈ کرسچن اسپتال کی بحالی کے لیے فنڈز ریزنگ مہم کا آغاز کیا۔ چیف جسٹس نے اسپتال کی بحالی کے لیے ایک لاکھ روپے امداد کا اعلان بھی کیا۔ عدالت نے یونائیٹڈ کرسچن ہسپتال کے گزشتہ دس سال کے فنڈز کا فرانزک آڈٹ کرانے کا حکم بھی دیا ۔ عدالت نے اسپتال کی بحالی کے لیے سات رکنی اسٹیرنگ کمیٹی بنانے کا حکم دیا۔ عدالت نے اسٹیئرنگ کمیٹی کے کنونیئر ڈاکٹر جواد سے کمیٹی کے دیگر ممبران کے نام تجویز کرنے کیلئے کہا۔ ڈاکٹر جواد نے بتایا کہ یو سی ایچ کی بحالی کے لیے 40سے 50کروڑ روپے درکار ہوں گے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ کرسچن کمیونٹی بڑھ چڑھ کر تعاون کرے گی۔عدالت میں موجود کرسچن کمیونٹی کے دیگر عہدیداروں نےبھی امداد دینے کا اعلان کیا۔عدالت نے حکومت پنجاب سے بھی اسپتال کی بحالی کے لیے فنڈز اور تعاون فراہمی کی تفصیلات طلب کر لیں۔