سندھ میں گورنر راج کیلئے تحریک انصاف کی مقامی قیادت بے تاب

کراچی (رپورٹ:نواز بھٹو)پی ٹی آئی کی مقامی قیادت نےسندھ میں 2 ماہ کے لئے گورنر راج لگا نے پرمرکزی حکومت کوان ہاؤس تبدیلی کی یقین دہانی کرا دی ۔21 اراکین اسمبلی کی حمایت کے حصول کا ٹاسک 2پارٹی رہنماؤں کے سپرد کر دیا گیا۔ایم ایم اے کے ایک اور تحریک لبیک کے 3 اراکین نے ان ہاؤس تبدیلی کے لئے پی ٹی آئی کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ صوبائی حکومت نےبھرپور مزاحمت کے لئے کمر کس لی ۔ پی پی کے اراکین اسمبلی کو حلقوں میں رہنے کی ہدایت کر دی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پی ٹی آئی سندھ کی قیادت مرکز کو یقین دہانی کرانے میں مصروف ہے کہ اگر صوبے میں 2 ماہ کے لئے گورنر راج نافذ کر دیا جائے تو وہ سندھ اسمبلی میں اکثریت کیلئے مطلوب اراکین کی تعداد حاصل کر لے گی۔ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں پی ٹی آئی کے کراچی سے ایک رکن صوبائی اسمبلی جو ماضی میں روایتی سیاست کا حصہ رہے ہیں نے پی پی کے ناراض اراکین اسمبلی سے رابطے شروع کر دئیے ہیں۔ اس وقت سندھ اسمبلی کے مجموعی اراکین کی تعداد 168 ہے ۔ایوان میں پی ٹی آئی کے پاس عددی تعداد 30 ہے۔ جی ڈی اے کے پاس 14 اور ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان 20 ہیں ۔ایم ایم اے کے پاس ایک جبکہ تحریک لبیک کے اراکین کی تعداد 3 ہے۔ سندھ کی حکمراں جماعت پی پی کے پاس موجود اراکین کی تعداد 99 ہے۔ان اعداد و شمار کے حساب سے سندھ اسمبلی میں حزب اختلاف کے مجموعی اراکین کی تعداد 68 بنتی ہے اگر ان ہاؤس تبدیلی میں ایم ایم اے اور تحریک لبیک نے پی ٹی آئی کا ساتھ نہ دیا تو حزب اختلاف کی تعداد 64 رہ جائے گی۔ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کو اتحادیوں ایم کیوایم اور جی ڈی اے کی حمایت کے علاوہ بھی کم سے کم 21 اراکین کی حمایت درکار ہو گی جو پی پی کے ناراض اراکین کو ساتھ ملا کر پورا کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ آئین کی رو سے دیکھا جائے تو آئین کے آرٹیکل234 کے تحت اگر صدر مملکت کو یقین ہو جائے کہ صوبائی حکومت آئین و قانون کے مطابق معاملات نہیں چلا سکتی تو وہ گورنر راج نافذ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔تاہم گورنر راج کی 2 ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے منظوری ضروری ہوتی ہے۔ آئین کا آرٹیکل234(3) کہتا ہے کہ پارلیمینٹ کی منظوری کے بغیر گورنر راج نافذ کرنے کا صدارتی فرمان زیادہ سے زیادہ دو ماہ تک نافذ العمل رہے گا۔ آرٹیکل334 کے تحت متعلقہ صوبائی اسمبلی کے اختیارات پارلیمینٹ اپنے ہاتھ میں بھی لے سکتی ہے، گورنر راج کے نفاذ کے بعد گورنر آئین کے آرٹیکل105 کی پابندیوں سےآزاد ہو جاتا ہے، آرٹیکل 105 کے تحت گورنر کابینہ یا وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر ہی فرائض انجام دیتا ہے لیکن گورنر راج کی صورت میں وہ انتظامی معاملات ان اختیارات کے تحت چلاتا ہے جو اسے صدر کی طرف سےتفویض کئے جاتے ہیں۔پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کا خیال ہے کہ اگر گورنر راج نافذ کیا جاتا ہے تو آئین کی مقررہ 2 ماہ کی مدت کے دوران ہی وہ تحریک عدم اعتماد کے لئے تعداد پوری کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب سپریم کورٹ کی طرف سے جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کاروائی عمل میں آتی ہے تو نئے لیڈر آف ہاؤس کا چناؤ پی پی کیلئے بھی نا گزیر ہو جائےگا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزارت اعلیٰ کے حصول کے لئے پی پی کے اراکین اسمبلی لابنگ میں مصروف ہو گئے ہیں –

Comments (0)
Add Comment