ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی فیملی کمپنی حوالہ میں ملوث نکلی-منیجر گرفتار

کراچی(رپورٹ:عمران خان) ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے رہنما سلیم مانڈوی والا کی فیملی کمپنی مانڈوی والا انٹر ٹینمنٹ بھی حوالہ میں ملوث نکلی ۔ایف آئی اے کو 12 کروڑروپے غیر قانونی طور پر بیرون ملک بھیجنے کے شواہد مل گئے ہیں ۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے کو چھاپے میں مانڈوی والا انٹر ٹینمنٹ کی جانب سے ٹیکس چوری کر کے اشیا بیرونی ممالک سے منگوانے کیلئے انڈر انوائسنگ کے ثبوت بھی مل گئے ہیں ۔ مانڈوی والا انٹرٹینمنٹ کےکے سنیما گھر و ملحقہ دفتر پر چھاپہ مار کر منیجر کو حراست میں لے گیا ہے ، جبکہ اہم ریکارڈ بھی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔یہ سنیما سلیم مانڈوی والا کے بھائی ندیم مانڈوی والا کا ہے جو اسلام آباد میں بھی ایک سنیما کے مالک ہیں۔ابتدائی تحقیقات میں ندیم مانڈوی والا کے خلاف12کروڑ کی رقم غیر قانونی طریقے سے ملزم شکیل جعفرانی کے ذریعے دبئی منتقل کرنے کے شواہد مل گئے ہیں ۔سنیماکیلئے در آمد کی گئی مشینوں و پروڈکشن سامان کی مالیت و مقدار کم ظاہر کر کے ٹیکس چوری کرنے کیلئے انڈر انوائسنگ کی دستاویزات بھی ایف آئی اے کے ہاتھ لگ گئی ہیں۔ایف آئی اے حکام کا دعویٰ ہے کہ ندیم مانڈوی والا کے خلاف کیس ابتدائی تحقیقات میں ہی ثابت ہو چکا ہے۔حراست میں لئے گئے منیجر سے تفتیش و ریکارڈ کی چھان بین کے بعد مقدمہ پیر کو درج کیا جائے گا جس میں ندیم مانڈوی والا اور دیگر ملزمان نامزد کئے جائیں گے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حوالہ کے دھندے میں ملوث پہلے سے گرفتار غیر قانونی منی چینجرز شکیل جعفرانی نے مانڈوی والا،اومنی گروپ سمیت ملک بھر کی 200سے زائد کمپنیوں کی جانب سے اربوں روپے غیر قانونی طور پر باہر بھیجنے کے اعتراف کر لیا ہے اور ملزم سے شواہدبھی مل گئے ہیں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدا میں اومنی اور مانڈوی والا گروپ سمیت20 بڑی کمپنیوں کے خلاف الگ الگ انکوائریاں رجسٹرڈ کر کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں۔ یہ کمپنیاں بھاری رقم حوالہ کے ذریعے بیرون ملک بھجواتی رہی ہیں۔آئندہ ہفتے میں دیگر 20کمپنیوں کیخلاف 20 کیس درج کئے جائیں گے ۔تمام200سے زائد کمپنیوں کیخلاف کارروائی 5سے 6ماہ میں مکمل ہوگی ۔ اس ضمن میں ایف بی آر ،کسٹم،اسٹیٹ بینک و ایس ای سی پی سے بھی ریکارڈ حاصل کیا جا رہا ہے۔ایف آئی اے ذرائع کے بقول مانڈوی والا کمپنی کے زیب النسااسٹریٹ پر واقع ایٹریم مال میں واقع قائم سنیما گھر پر ایف آئی اے کی ٹیم نے اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی مراد بالادی و نبیل محبوب قائمخانی کی سربراہی میں شام7بجے چھاپہ مارا۔ اس وقت ندیم مانڈوی والا اسلام آباد میں تھے۔کارروائی کے دوران سنیما منیجر،ریکارڈ و کمپیوٹرز تحویل میں لے کر انہیں ایف آئی اے اینٹی کرپشن اینڈ کرائم سرکل دفتر صدر منتقل کر دیا گیا۔ایف آئی اے حکام نے ‘‘امت ’’کو بتایا ابتدائی طور پر 11کروڑ80لاکھ حوالہ کے ذریعے باہر بھجوانے کا انکشاف ہوا۔گزشتہ کئی برس کے دوران مانڈوی والا انٹر ٹینمنٹ کی جانب سے باہر بھجوائی گئی رقم کا حجم ایک ارب سے زائد ہوسکتا ہے ۔ذرائع کے مطابق گزشتہ برس کروڑوں کی ٹیکس چوری کی اطلاعات پر ایف بی آر کے شعبہ انٹیلی جنس کی ایک ٹیم نے بھی مانڈوی والا کمپنی پر چھاپہ مار کر متعلقہ ریکارڈ تحویل میں لیا تھا۔ اس کارروائی کے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا خود بھی پہنچ گئے تھے ، جنہوں نے ٹیم کے سربراہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو دفتر سے نکلنے کا کہا تھا اور اسی دوران اسلام آباد میں کسی سے فون پر بات کی اور غصے میں کئی فونز کئے جس کے نتیجے میں ایف بی آر کی ٹیم حکم پر واپس گئی اور جاتے ہوئے تحویل میں لیا جانے والا ریکارڈ بھی واپس دے گئی ۔چھاپہ کے بعد ٹیم کے افسر کا تبادلہ کر دیا گیا ۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ منیر احمد شیخ نے ‘‘امت ’’کو بتایا کہ اب تک مانڈوی والا گروپ کی جانب سے شکیل جعفرانی کے ذریعے10کروڑ سے زائد کی رقم باہر بھجوانے کے شواہد مل گئے ۔ یہ رقم ان غیر ملکی تاجروں کو دی گئی جن سے مختلف قسم کی مشینری و سامان منگوایا گیا۔ایسی دستاویز بھی مل گئی ہیں جس سے معلوم ہوا ہے کہ درآمدی سامان کی مالیت اور مقدار جعلسازی سے کم جاتی رہے اور اسی حساب سے ڈیوٹی و ٹیکس بھی کم ادا کئے گئے۔سامان کی مکمل ادائیگی حوالہ کے ذریعے کی گئی ۔پکڑے گئے منیجر سے تفتیش اور اسٹیٹ بینک سرکل سے پیر کو تحریری شکایت حاصل کرنے کے بعد کمپنی کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کر لیا جائے گا۔دسمبر میں حوالہ و ہنڈی کے نیٹ ورک کے خلاف کراچی میں20 کارروائیاں کی جاچکی ہیں۔ تمام درج مقدمات میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات بھی شامل ہیں۔مانڈوی والا گروپ کے خلاف تحقیقات میں آمدنی کے ذرائع ثابت نہ ہوئے تو مقدمے میں اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کی دفعات شامل کی جائیں گی۔
٭٭٭٭٭
کراچی(اسٹاف رپورٹر)میگا منی لانڈرنگ و جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد سابق صدر آصف زرداری اور ان کے رفقا دباؤ کا شکار ہو گئے ہیں۔پیپلز پارٹی کے قانونی مشیر بھی ٹھوس شواہد و مکمل منی ٹریل پر مشتمل رپورٹ سامنے آنے پرسر پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں اور وہ پر امید نظر نہیں آ رہے۔نو ڈیرو میں طویل اجلاس کے دوران قانونی مشیروں نے آصف زرداری پر واضح کر دیا کہ انہیں اعلیٰ عدالتوں سے کسی قسم کا ریلیف ملنے کی امید نہیں۔سابق صدر کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ غیر ملکی تعلقات استعمال کر کے وفاقی حکومت پر دباؤ بڑھا کر ریلیف کا راستہ نکالیں ۔حکومت نے ای سی ایل میں شامل ناموں کی فہرست جاری کر دی ہے ۔سپریم کورٹ کے حکم پر قائم جے آئی ٹی کی پیش کردہ رپورٹ میں24 ویں نمبر پر موجود آصف زرداری کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سمٹ بینک حکام نے ان کے ایما پر14ارب کی کرپشن کی۔36 ویں نمبر پر موجود فریال تالپور کو سندھ بینک کے سیاہ و سفید کی مالک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریکارڈ کے مطابق بینک کا صدر کسی بھی معاملے میں فریال تالپور کو جواب دیتا تھا۔اہم عہدوں پر 4 افسران کا تقرر فریال تالپور کی مرضی سے ہوا جن میں نور زہری، بدر الدین، مختار احمد اور وسیم حیدر شامل ہیں۔ جے آئی ٹی کو موصولہ ریکارڈ کے مطابق صدر سندھ بینک بلال شیخ فریال کی جانب سے فریال تالپور کے نام خطوط میں ‘‘ برائے توجہ اے جی مجید ’’ کا خصوصی نوٹ تحریر کیا جاتا تھا اور کاپی ارسال کی جاتی تھی۔155نمبر پر موجود وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے بارے میں کہا گیا کہ وزیر خزانہ کے طور پر وہ آصف زرداری اور فریال تالپور کی ہدایات پر اومنی گروپ سے متعلق سمریوں پر آنکھیں بند کر کے سفارشی نوٹ کے ساتھ دستخط کرتے تھے۔بطور وزیر خزانہ ،صدر سندھ بینک بلال شیخ سے مل کر اومنی اور اس سے منسلک کمپنیوں کو24 ارب 94 کروڑ روپے کا قرض دیا ۔سندھ حکومت کے ملکیتی ادارے اومنی کو اونے پونے بیچیں اور بیمار صنعتوں کے نام پر اربوں کی سبسڈی بھی دی ۔ جعلی اکاؤنٹس کیس میں ملوث فرمز کو مختلف محکموں اور بلدیاتی اداروں سے ٹھیکے دلوانے اور وفاداری پر وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔129ویں نمبر پر سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ وزیر اعلیٰ کے طور پر وزیر خزانہ مراد علی شاہ کی اومنی سے متعلق بھیجی گئی تمام فائلوں اور سمریز پر پڑھے بغیر دستخط کردیا کرتے تھے۔ زمینوں کی زیادہ الاٹمنٹ بھی قائم علی شاہ دور میں ہوئی ۔ حکومت کی جاری فہرست میں سابق ڈی جی سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی منظور قادر کاکا ، قائم مقام چیئرمین ایس ای سی پی طاہر محمود، ایس ای سی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابدحسین، ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد کے نام موجود ہیں۔ای سی ایل فہرست میں عبدالغنی مجید اور کمال مجید سمیت اومنی گروپ کے 10 افراد کے نام شامل ہیں۔ان میں خواجہ سلمان یونس،محمد عارف خان، مصطفیٰ ذوالقرنین ماجد، نمر مجید خواجہ،نازلی مجید اور انور ماجد خواجہ کے نام شامل ہیں۔فہرست میں سندھ بینک کے صدر بلال شیخ، احسن طارق، منیجر ثروت عظیم، گروپ ہیڈ کریڈٹ ندیم الطاف جب کہ سمٹ بینک کے صدر احسان رضا درانی، آپریشنل منیجر محمد ناصر شیخ، نیشنل بینک کے صدر علی رضا، ہیڈ کارپوریٹ مسعود کریم شیخ کے نام بھی شامل ہیں جن کے ایما پر اومنی گروپ کو 60 ارب روپے سے زائد کے قرضے ملے ۔فہرست میں شامل انور مجید اور بیٹا عبدالغنی مجید اب تک گرفتار کئے گئے ہیں جبکہ آصف زرداری ا ور ان کی ہمشیرہ عبوری ضمانت پر ہیں ۔جاری کی گئی فہرست میں دئیے گئے ناموں کی ترتیب کچھ اس طرح ہے۔ عبدالغنی انصاری، اومنی گروپ کے عبدالغنی مجید، پنک ریزیڈنسی کے عبدالجبار، عبدالمومن ڈاہری، اے ایچ چاچڑ اینڈ سنز کے عبدالقدوس چاچڑ، ابو بکر، عدیل شاہ راشدی، آفتاب حسین (آفتاب پٹھان)، سیکریٹری توانائی آغا واصف، احسن حسن، سمٹ بینک کے صدر احسن رضا درانی، سندھ بینک کے صدر احسن طارق، ایکسین سندھ کول اتھارٹی علی اکبر ابڑو، ایس ای سی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر علی عظیم اکرام، اومنی گروپ کے علی کمال مجید، رکن صوبائی اسمبلی علی نواز مہر، عامر، کمرشل اینڈ ریٹیل کے سربراہ عامر صدیقی، امجد آفتاب، اومنی گروپ کے انور مجید خواجہ، اشفاق احمد لغاری، ٹھاڈانی انٹرپرائزز کے اشوک چتر ٹھاڈانی، اشرف ڈی بلوچ کنسٹرکشن کمپنی کے شہزاد جتوئی، سابق صدر آصف زرداری،حوالہ ڈیلر بشارت محمود، سندھ بینک کے صدر بلال شیخ، رکن قومی اسمبلی بلاول زرداری ،داؤدد خان، داؤد مور کاس، احسان علی چوہدری، احسان الہیٰ، سید عامر شہزاد، فہد حسین، فہد سلطان احمد، فرمان علی، رکن قومی اسمبلی فریال تالپور، غلام حسین ہالاری، غلام مصطفیٰ میمن، سیکریٹری لینڈ یوٹیلائزیشن غلام مصطفیٰ پُھل، غلام قادر، غلام نبی، حافظ رب نواز اینڈ کمپنی کے حافظ رب نواز، حاجی مرید اکبر، حاجی سراج الدین سومرو، حماد شاہد، ہریش اینڈ کمپنی کے ہریش کالو مل، چیف ایگزیکٹو آفیسر ایس ٹی ڈی سی کے حسن رضا عباسی، چیئرمین ایس آئی ڈی حسن علی میمن، سمٹ بینک کے صدر حسین لوائی، عمران حیدر، عمران خان، عمران منصور علی جیوانی، وزیر توانائی امتیاز شیخ، مدنی انجینئرنگ کے اقبال احمد خان، مدنی ٹی وی کے ملازم عرفان سلیمان، جگدیش جگدیش،نیاز محمد خان اینڈ برادرز کے جہانزیب خان، جسونت کمار، کامران علی، کنول کمار، ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد، خالد حسین، خالد مسعود چنا، چیف آفیسر اومنی گروپ خواجہ سلمان یونس، خد بخش کارتیو، خرم نیازی، ایم ای کنسلٹنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر خورشید جمالی، پنک ریذیڈسنی کے محمد اسلم قریشی، محمد عمیر، گلیکسی کنسٹرکشن کے ڈاکٹر ڈنشا ایچ انکل سریا، مہ جین فاطمہ، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی منظور قادر کاکا، پروکیورمنٹ کمیٹی کے مقصود نقوی، مسود الحسن، نیشنل بینک کے ہیڈ کارپوریٹ مسعود کریم شیخ، معراج معراج، محمد مناف، منیجر سندھ بینک ثروت عظیم، محمد افضل، محمد احسن، محمد اعجاز ہارون، محمد اکمل، ایم اے سی انجینئرنگ محمد علی چنا، اومنی گروپ کے محمد عارف خان، محمد اسد علی، محمد اشرف مغل، محمد آصف، محمد فیصل، محمد حنیف ، اومنی گروپ کے ملازم محمد حسین بروہی، محمد عمران، محمد اقبال، ودود انجینئرنگ کے محمد جعفر، اویسس ڈرلنگ کارپوریشن کے محمد جہانگیر یوسف، محمد جلال، محمد جاوید علوی، منیجر سندھ بینک محمد مختار احمد، محمد مشتاق، محمد نعیم، سمٹ بینک کے آپریٹنگ منیجر محمد ناصر شیخ، محمد قادر، محمد ردیف قریشی، محمد رشید، محمد ساجد، محمد شبیر، محمد شہزاد عالم، محمد سہیل، محمد طاہر محمود، محمد توصیف، وسیم بلڈرز کے محمد وسیم، محمد یاسین، پارک لین پرائیویٹ لمیٹڈ کے محمد یونس قدوانی، محمد یوسف، محمد یوسف عباسی، پنک ریذیڈنسی کے محمد یوسف ایدھی، رکن صوبائی اسمبلی مکیش چاولہ، اومنی گروپ کے مصطفیٰ ذوالقرنین مجید، پیرا ماؤنٹ بلڈرز کا ندیم احمد خان، سندھ بینک کا ندیم الطاف، ہیڈ کارپوریٹ نیشنل بینک ندیم انور الیاس، ندیم حاکم مانڈوی والا، دبئی میں موجود ریاض لال جی، نوید اقبال، اومنی گروپ کی نازلی مجید، نمر مجید، ایڈیشنل سیکریٹری نثار احمد شیخ، رکن اسمبلی سید قائم علی شاہ، راؤ محمد خالد، صاحبزادہ ذیشان رحمٰن ، سیف الدین،سید آصف محمود، سجاول خان، سجاد حسین، سجاد عباسی، سلمان سلمان، سیکریٹری لینڈ ثاقب سومرو، سردار احمد، سعد سمیر، شبیر وزیر خان، شاہد علی ولد محمد صدیق، شاہد علی ولد محمد سلطان، شہزادہ کامران انصاری، شیخ فوذ الرحمٰن، شیخ وقار احمد، شیر محمد مغیری، سراج شاہد، رکن اسمبلی سہیل انور سیال، سیکریٹری خزانہ سہیل راجپوت، صدر نیشنل بینک سید علی رضا، سید عارف علی، سید اسد عباس زیدی، سید کاشف رضا، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، سید نصرت علی، علی حسن زرداری، سید شاہ نواز نادر، سید ضمیر حیدر، سید ذیشان علی وارثی، طحہٰ رضا، چیئرمین ای سی پی طاہر محمود، طاہر محمود، طارق عزیز چنہ، طارق بیگ، طارق سلطان، عذیر تحسین، سمٹ بینک کے ظہیر اسماعیل، ذیشان احمد، ذوالفقار علی شاہ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایس ای سی پی عابد حسین شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment