پشاور/ کابل/ واشنگٹن (نمائندہ خصوصی/ امت نیوز) افغانستان میں امن عمل ایک بار پھر خطرے میں پڑ گیا۔طالبان نے جدہ میں مجوزہ کانفرنس کے دوران کابل انتظامیہ کے ساتھ بیٹھنے کیلئے دباؤ مسترد کر دیا اور صاف طور پر کہا ہے کہ اشرف غنی حکومت سے کوئی بات چیت نہیں ہو گی۔ قبل ازیں افغان میڈیا نے اشرف غنی اور سعودی فرمانروا کے درمیان ٹیلی فون رابطے کا حوالہ دیتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ شاہ سلمان نے افغان زیر قیادت امن عمل کی حمایت کر دی ہےاور جدہ میں افغان نمائندے بھی طالبان سے ملاقات کریں گے۔ ادھر امریکہ نے افغانستان سے نصف فوج نکالنے کے اعلان سے یوٹرن لے لیا، وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہےکہ صدر ٹرمپ نے فوج کو افغانستان سے انخلا کے لئے کسی قسم کا حکم نامہ جاری نہیں کیا۔ چند روز قبل امریکی صدر نے افغانستان میں موجود اپنی فوج نصف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اسی دوران افغانستان میں طالبان حملوں اور اتحادی فوج کی کارروائیوں میں 35 اہلکاروں سمیت 60 افراد مارے گئے۔ کابل سے موصولہ اطلاعات کے مطابق افغان ٹی وی طلوع نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ افغان صدر نے گزشتہ روز سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو فون کرکے امن کیلئے کردار ادا کرنے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جدہ کانفرنس امن کی جانب اچھا قدم ہے۔ جس سے خطے میں بھی استحکام آئے گا۔افغان ٹی وی نے دعوی کیا کہ بات چیت کے دوران سعودی فرمانروا نے افغان دھڑوں کے درمیان مذاکرات سے متعلق اشرف غنی حکومت کےمؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ سعودی عرب افغانستان میں امن اور استحکام کو مضبوط بنانے کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔رپورٹ میں مزیدکہا گیا کہ سعودی حمایت کے نتیجے میں جدہ کانفرنس کے دوران طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بھی ملاقات ہوگی۔دوسری جانب طالبان نے صاف طور پر کہا ہے کہ وہ اشرف غنی حکومت سے کوئی بات چیت نہیں کریں گے۔ ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں امارت اسلامیہ اور کابل انتظامیہ کے نمائندوں کے درمیان ایک نشست منعقد ہونے کی اطلاعات محض افواہ ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امارت اسلامیہ سابقہ مؤقف پر قائم ہے۔ ہم ایک قوی اور سنجیدہ منصوبے کی رو سے امریکہ کیساتھ مذاکرات کے سلسلے کو آگے بڑھا رہے ہیں،تاکہ ہمارے ملک افغانستان پر ان کا قبضہ ختم ہوجائے۔انہوں نے طالبان کے نائب مولوی محمد یعقوب مجاہد سے منسوب خط کو جعلی قرار دیا اور کہا کہ یہ ناکام انٹیلی جنس سازش ہے جو پہلے بھی کامیاب نہیں ہوئی تھی۔افغان ذرائع ابلاغ کے مطابق تازہ صورتحال پر کابل میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ افغان امن کونسل کے ترجمان احسان اللہ طاہر نے کہا کہ: ” جدہ کا اجلاس سعودی تجویز پر منعقد کیا جا رہا ہے، اور ہم امید کرتے ہیں کہ ابو ظہبی کے واقعات دہرائے نہیں جائیں گے.” انہوں نے دعوی کیا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں افغان ٹیم کی موجودگی اپنے ملک اور خطے کے مفادات میں ہے۔ دریں اثنا پنٹاگون کے دبائو پر امریکی حکومت افغانستان سے فوجی انخلا سے مکر گئی۔ وائٹ ہاوس کے ترجمان گریٹ مرکس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر افغانستان میں فوج کم نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے محکمہ دفاع کو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے احکامات نہیں دیئے۔واضح رہے کہ ایک ہفتہ قبل امریکی میڈیا نے افغانستان سے 7ہزار سے زائد امریکی فوجیوں کے انخلاء کی خبر دی تھی۔ علاوہ ازیں افغانستان میں طالبان نے ہفتہ کو الخندق جہادی آپریشن کے دوران صوبہ ہلمند کے مختلف اضلاع میں فوجیوں، پولیس اہلکاروں پر حملے کئے ،جس کے نتیجے میں کم ازکم 35 اہلکار مارے گئے ،جب کہ 2 ٹینکوں سمیت متعدد گاڑیاں بھی تباہ ہوئیں۔طالبان ترجمان کے مطابق ناد علی میں 12، ناوہ میں 7، سیدان میں 4، مارجہ میں تریخ نادر میں 3، خوشک آبئی میں 2 اہلکار ہلاک ہوئے۔ننگر ہار میں افغان فورسزنے ایک آپریشن میں 16 افراد مارڈالے۔ حکام نے دعوی کیا ہے کہ مرنے والوں کا تعلق داعش خراسان کے خودکش اسکواڈ سے ہے اور ان کا کمانڈرخطاب بجواری بھی ہلاک ہوا ہے۔ ادھر صوبہ فاریاب کے ضلع شیرائن قا گاب میں گرد آلود سڑک کے کنارے نصب دھماکہ خیز مواد پر ایک خاتون کا پاؤں آنے کے باعث دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں دو خواتین اور چار بچے ہلاک ہو گئے ۔