اسلام آباد( اخترصدیقی) پیپلز پارٹی نے حکومت پرجعلی اکاؤنٹس کی جے آئی ٹی رپورٹ کے شامل گواہان پر سلطانی گواہ بنانے کیلئے دباؤ ڈالنے کا الزام لگاتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے قیام پر آئینی وقانونی سوالات اٹھادیے ہیں، کہاہے کہ جے آئی ٹی نے جانبدارانہ رپورٹ تیار کی ہے ،اکاؤنٹس کاآصف علی زرداری یاان کے خاندان سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ،ایف آئی اے اور دیگراداروں کاحکومت کے ساتھ پس پردہ رابطہ بھی رپورٹ پر شکوک وشبہات پیداکررہاہے ۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں جعلی اکاؤنٹس منجمدکردیے گئے ،مانیٹرنگ بھی شروع کردی گئی ہے ،جائیدادو ں اور دیگر معاملات سے ملزمان کوئی فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے، متعلقہ حکام کی جانب سے رپورٹ پیش کیے جانے کاامکان ہے ۔جبکہ سابق صدرآصف علی زداری ،بلاول بھٹوزرداری اورفریال تالپورسمیت 172میں سے 80سے زائد شخصیات نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات تیارکرلیے جو آج پیر کوسپریم کورٹ میں دائر کیے جانے کاامکان ہے،اعتراضات میں جے آئی ٹی رپورٹ کے تناظر میں نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے پر بھی تحفظات کااظہار کیاگیاہے۔ جبکہ 92افرا د میں سے زیادہ تر افرادجواب کے لیے مزیدوقت دیے جانے کی درخواست کریں گے ۔دوسری جانب سابق صدرآصف علی زرداری نے اپنے اعتراض میں جے آئی ٹی رپورٹ کوجھوٹ کاپلندہ قرار دیتے ہوئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے قیام پر آئینی وقانونی سوالات اٹھادیے ہیں ،ان کے اعتراض میں کہاگیاہے کہ جے آئی ٹی نے جانبدارانہ رپورٹ تیار کی ہے ،اس کاقیام آئین وقانون کے مطابق نہیں ،جن اکاؤنٹس کی بات کی گئی ہے ان کاآصف علی زرداری یاان کے خاندان کے کسی فردسے کوئی براہ راست تعلق نہیں ،تمام تر الزامات مفروضوں کی بنیادپر لگائے گئے ہیں ،جے آئی ٹی نے دوران تحقیقات آصف علی زرداری سے رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمارکی بابت سوالات نہیں کیے ،ان کے دوستو ں اور ساتھیوں پرسلطانی گواہ بننے کے لیے بہت زیادہ دباؤڈالاجارہاہے ،ایف آئی اے اور دیگراداروں کاحکومت کے ساتھ پس پردہ رابطہ بھی رپورٹ پر شکوک وشبہات پیداکررہاہے اس بارے عدالت تحقیقات کاحکم جاری کرے ۔ذرائع نے ’’ امت‘‘ کوبتایاہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس میں زیادہ تر اہم ترین شخصیات نے اپنے جوابات تیار کرلیے ہیں جس میں انھوں نے جے آئی ٹی رپورٹ کویکسر مستردکردیاہے اور اس کورپورٹ کواپنے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیاہے ۔اومنی گروپ پہلے ہی اس رپورٹ پر اعتراضات داخل کراچکاہے ۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں گیارہ رکنی وکلاء ٹیم نے جے آئی ٹی رپورٹ پر جو اعتراضات اٹھائے ہیں ان میں جے آئی ٹی کی تشکیل سمیت دیگرمعاملات شامل ہیں سب سے بڑااعتراض گواہوں پر کیاگیاہے کہ گواہوں سے مرضی کے بیانات لیے گئے ہیں جوآئین کے آرٹیکل 10اے میں شفاف ٹرائل کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اگر ان گواہوں کی وجہ سے سزاسنائی گئی توان کوقانون کے مطابق دستیاب فورم ماتحت عدالتوں میں جانے کااختیارچھن جائے گا،جوقرین انصاف نہیں ہوگا۔اعتراضات میں یہ بھی کہاگیاہے کہ ایف آئی اے کوقانو ن کے تحت جودائرہ کار دیاگیاتھااس کی بھی پاپندی نہیں کی گئی ۔ذرائع کامزیدکہناہے کہ جے آئی ٹی کوجن اختیارات کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی وہ بھی قانون سے مطابقت نہیں رکھتی ،جے آئی ٹی ارکان کے ساتھ حکومت کامیل جول بھی شکوک وشبہات پیداکررہاہے اس ضمن میں سپریم کورٹ الگ سے تحقیقات کرائے کہ ایساکیوں ہورہاہے،یہ سیاسی مخاصمت بھی ہوسکتی ہے ۔حکومتی وزراء آئے دن جن باتوں کاذکر میڈیاسے کرتے ہیں وہی کام کسی نہ کسی شکل میں ہمارے سامنے آجاتاہے جس سے مزیدشبہات پیداہوتے ہیں ۔ہمارے خلاف پہلے بھی نیب میں مقدمات بنائے گئے جن میں ہمیں عدالتوں نے باعز ت بری کردیاہم آئین وقانون کااحترام کرتے ہیں اور جہاں بھی ہمیں بلایاگیاہم پیش ہوئے ۔ذرائع کے مطابق جن شخصیات کی جانب سے جوابات تیار کرلیے گئے ہیں ان میں سابق صدرآصف علی زرداری ،فریال تالپور ،بلاول بھٹوزرداری ،وزیر اعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ ،سابق وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ ،قائم مقام چیئرمین ایس ای سی پی طاہر محمود، ایس ای سی پی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عابد حسین، ڈپٹی کمشنر ملیر قاضی جان محمد، سندھ بینک کے صدر بلال شیخ، احسن طارق، منیجر ثروت عظیم، گروپ ہیڈ کریڈٹ ندیم الطاف جب کہ سمٹ بینک کے صدر احسان رضا درانی، آپریشنل منیجر سمٹ بینک محمد ناصر شیخ، نیشنل بینک کے صدر سید علی رضا، ہیڈ کارپورٹ مسعود کریم شیخ شامل ہیں ۔اومنی گروپ نے بھی اعتراضات داخل کرادیئے ہیں ۔ اومنی گروپ نے عدالت سے رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کی ۔ اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید اور انکے بیٹے عبدالغنی مجید نے موقف اختیار کیاہے کہ جے آئی ٹی کے پاس معاملہ نیب کو ارسال کرنے کی سفارش کی کوئی بنیاد نہیں اس لیے اس کی کسی بھی سفارش کی منظوری دینا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی،ہمیں جے آئی ٹی کی ایگزیکٹو سمری اور حتمی رپورٹ کے چار والیم فراہم کئے گئے ہیں لیکن جن924 لوگوں کے بیان ریکارڈ کئے گئے ہیں انکے نام فراہم ہی نہیں کئے گئے ہیں ، جے آئی ٹی نے جس ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے ہمیں وہ بھی فراہم نہیں کیا گیا ہے، ان ادھوری معلومات کی بنیاد پر جے آئی ٹی رپورٹ پر مفصل جواب دینے سے قاصر ہیں ،جواب گزار نے کہا ہے جے آئی ٹی رپورٹ کیساتھ ایسا کوئی مواد یا دستاویزات نہیں جو ان الزامات کی تائید کرتی ہوں ا سلئے ہم رپورٹ میں لگائے گئے ہر الزام میں معصو م ا ور بے گناہ ہیں ۔پی پی کے سینئررہنماء اور وکیل سردار لطیف خان کھوسہ ایڈووکیٹ نے ’’ امت‘‘ سے گفتگومیں کہاہے کہ چیئرمین بلاول بھٹوزرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت دیگرپی پی رہنماؤں کوجان بوجھ کر جعلی اکاؤنٹس کیس میں پھنسواکرکسی کوسیاسی فائدہ دینے کی کوشش کی جارہی ہے ہمارے خلاف پہلے بھی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں اور اس کانتائج ہمیشہ ہمارے حق میں ہی نکلے ،پی پی قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے ۔ہم اس کیس کابھی سامناکرنے کوتیار ہیں اور ہمارے رہنماؤں نے عدالتوں میں پیش ہوکر اس کاباقاعدہ ثبوت بھی فراہم کیاہے ۔ہم نظریاتی لوگ ہیں ہمارے کارکن ہر طرح کے حالات کامقابلہ کرنے کے لیے تیارہیں ۔ہم سپریم کورٹ میں بھی پیش ہوں گے اور قانون ہمیں جواب اور اعتراض کرنے کوحق دیتاہے ہم وہ اس استعمال کریں گے ۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے کہا ہے کہ پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی گرفتاری کے لیے دل گُردہ چاہیے، ان کی گرفتاری خطرناک کھیل ہو گا اور ملک افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے وفاقی دارالحکومت میں میڈیا نمائندوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔صحافی کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کی ممکنہ گرفتاری سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں پی پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کی گرفتاری ایک خطرناک کھیل ہوگا جس سے ملک افرا تفری کا شکار ہوجائے گا، ان کی گرفتاری خطرناک کھیل ہو گا اور ملک افراتفری کا شکار ہوجائے گا۔ بلاول کو گرفتار کرنا ممکن نہیں لیکن تحریک انصاف کی حکومت سے کچھ بعید بھی نہیں۔دریں اثناآصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری آج سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوں گے۔نجی ٹی وی کے مطابق پیپلز پارٹی کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ کی سماعت کے موقع پر حکمت عملی تیار کرلی گئی ہے، پیپلز پارٹی کے تمام اہم رہنما سماعت کے وقت وکلا کے ہمراہ سپریم کورٹ اسلام آباد میں ہوں گے تاہم آصف زرداری، بلاول بھٹو، فریال تالپور اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سپریم کورٹ نہیں جائیں گے۔