18لاشیں گرا کر حسینہ نے جھرلو الیشن جیت لئے

ڈھاکہ(امت نیوز) بھارت نواز حسینہ واجد نے بدترین دھاندلی اور تشدد کا مظاہرہ کرتے ہوئے جھرلو انتخابات جیت لئے اور 18 افراد کی بلی چڑھا کر مسلسل تیسری بار حکومت بنالی۔ عوامی لیگ کی غنڈہ گردی کے نتیجے میں درجنوں افراد زخمی ہوئے جن میں بی این پی کا ایک امیدوار اور اپوزیشن جماعتوں کے کئی رہنما شامل ہیں۔ صلاح الدین احمد ڈھاکہ کے حلقہ 4 سے الیکشن لڑ رہے تھے جہاں شیام پور کے پولنگ اسٹیشن پر انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اپوزیشن نے نتائج مسترد کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق حکمران جماعت کی جیت یقینی بنانے کیلئے خصوصی اقدامات کئے گئے تھے۔ نصف سے زائد اپوزیشن امیدواروں کو پہلے ہی نااہل قرار دے کر انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا جب کہ انتخابی شیڈول کا اعلان ہوتے ہی عوامی لیگ کے غنڈوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی جو پولنگ کے دوران بھی مخالفین کو ہراساں کرتے رہے۔ دوسری جانب انتظامیہ نے ملک گیر کریک ڈاؤن میں اپوزیشن کے ہزاروں کارکن و رہنما جیلوں میں ٹھونس دیئے اور وہ انتخابی مہم تک نہ چلاسکے، بیشتر مقامات پر انتخابی عمل یک طرفہ رہا، اپوزیشن کے نمائندوں کو پولنگ مراکز تک پہنچنے سے روکا گیا۔ ٹھپے لگتے رہے، جہاں ووٹنگ کی شرح کم تھی وہاں بھی ڈبے بھر دیئے گئے ۔اپوزیشن کو کچلنے اور انتخابی دھاندلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حسینہ واجد اپنے انتخابی حلقے گوپلا گنج 3 سے 2 لاکھ 29 ہزار539 ووٹ لیکر جیتی، جب کہ بی این پی امیدوار کو صرف 123 ووٹ پڑے۔ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کے مطابق عوامی لیگ کو 293 میں سے 259 نشستیں حاصل ہوچکی ہیں جبکہ اس کی اتحادی جاتیہ پارٹی کے بھی 22 امیدوار کامیاب ہوئے۔ بنگلہ دیشی ذرائع ابلاغ کے مطابق 10 ہزار سے زائد اپوزیشن کارکن و رہنما جیلوں میں اسیر ہیں۔ جن میں 6 امیدوارشامل ہیں۔ اپوزیشن کی مرکزی جماعت بی این پی کا کہنا ہے کہ اس کے کارکنوں پر 10 ہزار حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں 3 ہزار سے زائد کارکن زخمی ہوئے۔ دوسری بڑی پارٹی جماعت اسلامی کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت تک نہیں دی گئی اور اس کے امیدواروں نے بی این پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا۔ تیسری جماعت جاتیو پارٹی کے 49 ارکان سمیت 57 امیدواروں نے تو صورتحال دیکھ کر پولنگ کا بائیکاٹ کردیا۔ امریکی خبر ایجنسی کے مطابق اسے 50 سے زائد افراد کی فون کالز موصول ہوئیں جنہوں نے پولنگ بوتھ میں حکمراں جماعت کی جانب سے دھمکیاں موصول ہونے اور عوامی لیگ کو ووٹ دینے پر مجبور کرنے کی شکایات کیں۔چیف الیکشن کمشنر کے ایم نور الہدیٰ نے تسلیم کیا کہ کچھ حادثات پیش آئے ہیں، ہم نے حکام سے معاملات حل کرنے کا کہا ہے۔یوریشیا گروپ کے جنوبی ایشیائی تجزیہ کار ساشا رائزر کے مطابق حسینہ واجد کی جانب سے ریاستی مشینری کے استعمال نے ان کی انتخابی کامیابی کو یقینی بنایا ہے۔ انتخابی کمیشن نے یہ بھی کہا کہ وہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ ملک کے جنوب مشرقی علاقے میں ایک صحافی سمیت متعدد افراد کو ووٹ دینے سے روک دیا گیا یا پھر اُنہیں کہا گیا کہ اُن کا ووٹ پہلے ہی کاسٹ کیا جا چکا ہے۔سلہٹ اور بوگرہ سمیت ملک کے کئی اضلاع کے پولنگ اسٹیشنوں پر حکمران عوامی لیگ اور اپوزیشن بی این پی کے کارکنوں کے تصادم مسلح تصادم کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں ہلاکتیں ہوئیں۔ کئی جگہ پولنگ معطل رہی۔ پولیس ہلاک ہونے والے متعدد افراد کو عوامی لیگ کا کارکن بتاتی رہی جب کہ بی این پی کے مارے گئے کارکنوں کی ہلاکت کی تصدیق ان کی سیاسی وابستگی بتائے بغیر کی گئی۔انتخابی تشدد کے واقعات کے بعد ملک میں بعض ٹی وی چینلز کی نشریات روک دی گئیں۔ موبائل انٹرنیٹ بند کردیا گیا تاکہ دھاندلی کی خبریں نہ پھیل سکیں۔ موبائل انٹرنیٹ پولنگ مکمل ہونے کے کئی گھنٹے بعد کھولا گیا۔بی بی سی کے مطابق تصادم کے بیشتر واقعات اس وقت ہوئے جب عوامی لیگ کی جانب سے ووٹوں سے بھرے بیلٹ باکسز پولنگ اسٹیشنوں پر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ڈھاکہ کےمضافات میں بعض پولنگ مراکز پر صبح سویرے ہی بیلٹ باکسز پہلے سے بھرے ہوئے پائے گئے ۔بی بی سی کے ایک نمائندے نے بنگلہ دیش کے دوسرے بڑے شہرچٹاگانگ کے حلقہ 10 لکھن بازارمیں بھی ایک بیلٹ باکس کو ووٹوں سے بھرا ہوا دیکھا۔جب اس بوتھ کے پریزائڈنگ آفیسر سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو انھوں نے جواب دینے سے انکار کر دیا۔بی بی سی کے مطابق مذکورہ پولنگ اسٹیشن پر صرف سرکاری پارٹی کے نمائندے تھے اور یہی حال کئی دوسرے پولنگ اسٹیشنوں کا بھی بتایا گیا ہے۔جاتیا لیگ کے جنرل سیکریٹری نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ڈھاکہ کے مضافات میں پولنگ باکسز بھرے ہوئے ملے ہیں۔ ڈاکٹر کمال حسین کا کہنا تھا کہ 1971 میں لاکھوں افراد نے ووٹنگ کے حق کے لیے جانیں قربان کیں لیکن یہ حق اب بھی نہیں مل رہا۔بی این پی نے بھی سنگین دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ سینئر جوائنٹ جنرل سیکرٹری کبیر رضوی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ حکومت دھاندلی کے ذریعے من مانے نتائج حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔دوسری جانب بنگلہ دیش کے چیف الیکشن کمشنر نے دعویٰ کیا ہے کہ انتخابات پرامن ہوئے ہیں ۔بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے 18ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ بنگلہ دیش کے انگریزی اخبار دی انڈی پینڈینٹ نے درج ذیل ہلاکتوں کی تفصیل فراہم کی۔پولیس کی مدد کیلئے تعینات کی جانے والی رضا کار فورس انصار کا اہلکار نور النبی نواکھلی میں پولنگ اسٹیشن پر شر پسندوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوا۔رنگ متی میں حکمراں جماعت عوامی لیگ اور اپوزیشن بی این پی کے کارکنوں میں تصادم ہوا جس کے بعد بی این پی کے حامیوں نے حملہ کرکے عوامی لیگ کی اتحادی جوبولیگ کے رہنما بشیر الدین کو ہلاک کردیا۔ چتو گرام میں عوامی لیگ کے کارکنوں کے حملے میں بی این پی کی اتحادی جاتیا لیگ کاایک کارکن کبیر ہلاک ہو گیا۔ کمیلہ میں عوامی لیگ اور بی این پی کے تصادم میں ایک دیہاتی بچو میاں مارا گیا۔ چندیاں پورا میں 35 سالہ رکشہ ڈرائیور مجیب الرحمان اور راج شاہی میں تصادم کے دوران عوامی لیگ کے مقامی مرحوم رہنما کا بیٹا معراج الاسلام مارا گیا۔ راج شاہی میں ہی پولنگ اسٹیشن پر قبضے کی لڑائی میں 40 سالہ مدثر علی مارا گیا۔ تنگیل میں بی این پی کے 65 سالہ کارکن عبدالعزیز کی لاش برآمد ہوئی۔ انہیں پچھلی شب اغوا کیا گیا تھا۔ نٹور میں عوامی لیگ کے حامی حسین علی کو اس کے نوجوان عزیز نے ووٹ دینے کے جھگڑے پر چاقو گھونپ کر مار دیا۔ پولیس کے مطابق نرسنگڑی میں ملوں میان پولنگ اسٹیشن پر مارا گیا جب کہ بوگرہ میں عزیز الاسلام قتل ہوا۔ سلہٹ کی تحصیل صدر میں اے این پی اور بی این پی کے درمیان مسلح تصادم کئی گھنٹے جاری رہا جس میں 19 سالہ اسرائیل ہلاک ہوگیا۔کاکس بازار میں عبداللہ الفاروق تصادم میں مارا گیا۔

Comments (0)
Add Comment