اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سپریم کورٹ نے زلزلہ متاثرین کیلئے آنے والی بیرونی امداد میٹرو اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ کئے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے قرار دیا کہ زلزلہ متاثرین کی مدد کیلئے ملنے ولی رقم امانت تھی، جس میں حکومت نے خیانت کی۔جماعت الدعوۃ و جماعت اسلامی نے کام کیا ہے ،حکومت نے نہیں ۔امداد کا پیسہ کسی دوسرے منصوبے پر کیوں لگایا گیا ۔زلزلہ متاثرین کے مسائل حل نہ ہوئے اور بالا کوٹ شہر نہ بنایا گیا تو میں بھی لوگوں کے ساتھ مل کر احتجاج کروں گا۔کمال ہے وزیر اعظم کو صوبائی مسائل کا پتہ نہیں۔زیر التوا کیسز کا الزام مجھے دیا جاتا ہے۔ عدالت قانون نہیں بناسکتی ہے ، صرف تشریح کی جاسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے یہ ریمارکس مختلف مقدمات کی سماعت کے دوران دیئے۔زلزلہ متاثرین امداد کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے قرار دیا کہ لٹے پٹے لوگوں کی امداد پوری دنیا سے کی گئی۔امدادی رقم تو حکومت کے پاس امانت تھی، لیکن خیانت کی گئی ۔کوئی اسکول کھلا نہ اسپتال بنا نہ ہی نیا بالا کوٹ بن سکا۔لوگ آج بھی خیموں و ٹین کے گھروں میں بدترین حالات میں جی رہے ہیں ۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے رپورٹ کیلئے ایک ہفتے کی مہلت طلب کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ہفتہ نہیں ملے گا۔ میں 4گھنٹے کا سفر کر کے جا سکتا ہوں تو وزیر اعظم کیوں نہیں ۔ ٹین کی چھتوں تلے آج کی سردی میں رہنا ممکن نہیں۔وزیر اعظم کوسیشن جج کی رپورٹ بھجوائی لیکن کچھ نہ ہوا۔وفاقی کابینہ بیٹھ کر معاملے کو دیکھے۔ڈیم نہ بنا اور متاثرین کا مسئلہ حل نہ ہوا تو لوگوں کے ساتھ احتجاج کروں گا۔درخواست گزارنے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم شوگران گئے لیکن بالا کوٹ متاثرین کے پاس نہیں آئے۔متاثرین کیلئے آئی ہوئی رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور ملتان منتقل کی گئی جو واپس کی جائے۔ڈی جی ایرا کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایک غسل خانہ بنایا ہے تو بتا دیں۔ متاثرین کی بحالی کا حکم دینا کیا اختیارسے تجاوز ہے۔ایڈیشنل چیف سیکریٹری خیبر پختون نے استفسار پر بتایا کہ زمینوں کے مسائل حل کر دیئے گئے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انتظامیہ ہمارے نوٹس لینے پر سب کام کرتی ہے۔ایسے میں مجھے جوڈیشل ایکٹوسٹ کہا جاتا ہے ۔کمال ہے کہ جس صوبہ نے سب سے زیادہ محبت دی، اس کے مسائل کا وزیر اعظم کو پتہ ہی نہیں۔11سال سے ایرا نے متاثرین کی بحالی کیلئے کچھ نہیں کیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے قرار دیا کہ متاثرین کا پیسہ میٹرو و بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر خرچ ہوا، سڑک بنی نہیں، اسکول اسپتال بنا نہیں کیا یہ منصوبہ زیر زمین بنائے گئے ہیں۔عدالت نے چیئرمین نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کو پیر14جنوری کو پیش ہو کر ذاتی وضاحت کا حکم دیا۔ عدالت نے مکمل منصوبوں کی تفصیلات ،بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام و میڑو منصوبوں کو امدادی رقم منتقلی کی تفصیلات ،ملنے والی امداد اور اس کے خرچ کے علاوہ تمام متاثرین کی بحالی کے منصوبے کی تفصیلات بھی مانگ لیں۔ ایک اور کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے قرار دیا کہ مجھے الزام دیا جاتا ہے کہ میں گھر درست نہیں کر سکا۔ طریقہ کار کی حد تک گھر اِن آرڈر کر چکے ہیں۔اب پارلیمنٹ کا کام ہے۔تجاویز وزارت قانون میں زیر التوا ہیں، ہماری مجبوری ہے کہ قانون نہیں بنا سکتے۔وزارت قانون کو اقلیتوں سے متعلق بل پیش کرنے کی ہدایت ضرور دوں گا۔طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ مشرف سے آج تک کسی حکومت کو اقلیتوں کے حقوق کا خیال نہیں آیا۔چیف جسٹس نے عدالت میں موجود شعیب سڈل کو مخاطب کرتے ہوئے حکم دیا کہ جسٹس تصدق جیلانی فیصلے پر عمل کرنا ہی ہو گا ،اگر کوئی مدد درکار ہو تو عدالت تیار ہے۔شعیب سڈل نے عدالت کو بتایا کہ ابھی تک عدالت نے فیصلے پر عملدرآمد کا طریقہ کار طے نہیں کیا۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے پاس کام کی بہتات ہے، ثاقب جیلانی اور خرم سعید کو درخواست کریں گے کہ وہ آپ کی معاونت کریں۔عملدرآمد کے لیے جو چاہیے اس کی تحریر لکھ دیں۔شعیب سڈل نے کہا کہ آفس کی جگہ سمیت مختلف ایشوز ہیں۔طاہرہ عبداللہ نے عدالت کو بتایا کہ تحقیق اور ہوم ورک بہت ہو گیا ۔19جون 2014کو عدالتی فیصلہ آیا تھا لیکن آج تک قانون سازی نہیں ہوئی ۔