جعلی مقابلوں میں بے گناہوں کے قاتل رائو انوار کا ’’باب بند‘‘

کراچی(اسٹاف رپورٹر) نقیب اللہ قتل کیس میں ملوث سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد ملازمت سے ریٹائر ہوگئے۔راؤ انوار احمد خان 1981 میں ایس پی ہاربر کے پاس بطور کلرک بھرتی ہوئے۔ ایک سال بعد 1982 میں سندھ پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوگئے اور ترقی کرتے کرتے سینئر افسر کے عہدے تک جاپہنچے۔ انہوں نے 37 سال محکمہ پولیس کی ملازمت کی اور ان دنوں قتل کے مقدمے میں ملوث ہونے کی وجہ سے معطل تھے۔راؤ انوار کو سندھ پولیس میں انکاؤنٹر اسپیشلسٹ کے طور پر جانا چاہتا تھا اور انہوں نے کئی پولیس مقابلے کیے جن میں کئی مشتبہ افراد ہلاک ہوگئے تاہم ان پولیس مقابلوں کی صحت ہمیشہ مشکوک ہی رہی۔راؤ انوار کی پولیس پارٹی نے جنوری 2018 میں کراچی میں کپڑوں کے تاجر نقیب اللہ محسود سمیت 4 نوجوانوں کو مقابلے میں ہلاک کردیا تاہم تحقیقات کے بعد وہ مقابلہ جعلی ثابت ہوا۔ راؤ انوار پر قتل اور دہشت گردی کا مقدمہ درج کردیا گیا اور وہ روپوش ہوگئے۔ اس دوران انہوں نے بیرون ملک فرار ہونے کی بھی کوشش کی جس میں ناکام رہے۔چیف جسٹس نے نقیب اللہ قتل کا از خود نوٹس لیا اور پھر ایک روز اچانک راؤ انوار نے سپریم کورٹ میں پیش ہوکر گرفتاری دے دی۔ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل ہے اور اب وہ قتل و دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کررہے ہیں تاہم ان کی ضمانت ہوچکی ہے۔سپریم کورٹ میں پیش کی گئی سندھ پولیس کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ایس ایس پی راؤ انوار ضلع ملیر میں 7 سال تک تعینات رہے جس کے دوران 745 پولیس مقابلے ہوئے جن میں 444 ملزمان کو ہلاک کیا گیا۔ ان پر بھتہ خوری اور زمینوں پر قبضے سمیت بہت سے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے۔ ان کی ریٹائرمنٹ سے سندھ پولیس کی تاریخ ایک متنازع باب بند ہوا۔

Comments (0)
Add Comment