اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ نے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) اور ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے درمیان تمام معاہدے کالعدم قرار دے دیئے۔ساتھ ہی عدالت نے متاثرین کو کچھ ریلیف فراہم کرنے کے لیے حکم دیا کہ ایڈن ہاؤسنگ کی جانب سے فروخت کیے گئے 11ہزار پلاٹس کو ڈی ایچ اے 5سال میں تعمیر کرکے دے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈی ایچ اے والے بیواؤں اور شہیدوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں3رکنی بنچ نے ایڈن ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق کیس کی سماعت کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایڈن گارڈن ہاؤسنگ اسکیم میں 11 ہزار 716لوگ متاثر ہوئے اور اس کے نام پر لاہور کے 60ہزار لوگوں کو لوٹ لیا گیا، جبکہ جو اس اسکیم کے پیچھے تھے وہ 13ارب روپے لوٹ کر بھاگ گئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے متاثرین کے حقوق کا ازالہ کرنا ہے۔ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے حقوق کیسے متاثر ہورہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ڈی ایچ اے کے نام پر لوگوں نے دھوکا کھایا ہے ۔انسانی حقوق سیل میں اس دھوکے سے متعلق ایک لاکھ 9ہزار سے درخواستیں آئی ہیں۔ ڈی ایچ اے کے وکیل نے اپنے موکل کا دفاع کیا اور کہا کہ اس منصوبے میں ان کا شامل ہونا محدود تھا۔ یہ 25ہزار کنال کا منصوبہ تھا۔ڈی ایچ اے نے اپنا نام منصوبے میں 30فیصد شیئر کے عوض فروخت کیا۔ تاہم وکیل کے جواب پر چیف جسٹس نے عدم اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ کیا ڈی ایچ اے نے یہ ہمارے شہدا کے لیے کیا۔ڈی ایچ اے شہدا کے لیے کچھ کرتا تو یہ الگ بات تھی۔اس موقع پر انہوں نے پھر استفسار کیا کہ کیا کسی اور ملک کی فوج یہ کرتی ہے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے نمائندہ ڈی ایچ اے نے بتایا کہ ملائیشین فوج ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کام کرتی ہے۔نمائندے کے جواب پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے صرف ایک ہی ملک کی فوج کا ماڈل اپنالیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب جب آپ ہاؤسنگ اسکیموں میں گئے آپ کا نام خراب ہوا۔آپ نے جو زمینیں خریدیں، وہ متنازع تھیں اور ایسا کرکے آپ نے اپنی ساکھ بھی بیچ دی۔انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ آپ لوگ (ڈی ایچ اے) بیواؤں اور شہیدوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے اپنا کاروبار چلاتے ہیں اور ان کے نام پر رائلٹی لیتے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم یہی حکم دے دیتے ہیں کہ ڈی ایچ اے زمین حاصل کرے اور ایڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کیس کے متاثرین کو 3ماہ میں پلاٹس دیے جائیں اور جو واجب الادا رقم بنتی ہے، اس کی ادائیگی کی جائے۔اس دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایڈن ہاؤسنگ نے جتنی اراضی دی اس کی ادائیگی ہونی چاہیے اور جائز رقم کا تعین کر کے اس کی ادائیگی کرنی ہوگی۔بعد ازاں عدالت نے ڈی ایچ اے اور ایڈن گارڈن ہاؤسنگ سوسائٹی کے درمیان تمام معاہدے کالعدم قرار دے دیے، ساتھ ہی عدالت نے معاملہ حل کرنے کے لیے عملدرآمد بنچ بنانے کا عندیہ دے دیا۔عدالت نے حکم دیا کہ خورد برد کے الزام میں نیب کے زیر حراست ملزمان متعلقہ فورم سے رجوع کریں، جبکہ ایڈن ہاؤسنگ کی جانب سے فروخت کی گئی 11ہزار فائلوں کو ڈی ایچ اے 5 سال میں تعمیر کرکے دے گا۔