اوکاڑہ ملٹری فارمز کا دیرینہ تنازع حل ہونے کی امید

راولپنڈی (مانیٹرنگ ڈیسک)کئی سال پرانا اوکاڑہ ملٹری فارمز کا تنازع حل ہونے کی امید پیدا ہو گئی۔نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس کے چیئرمین جسٹس (ریٹائرڈ) نواز علی چوہان نے دعویٰ کیا ہے کہ پاک فوج نے تسلیم کیا ہے کہ اوکاڑہ ملٹری فارم اس کی ملکیت ہے نہ وہ اس کی ملکیت کی دعویدار ہے بلکہ اس کی اصل مالک پنجاب حکومت ہے۔برطانوی نشریاتی ادارےسے بات کرتے ہوئے این سی ایچ آر کے چیئرمین نے بتایا کہ بہت جلد اوکاڑہ مزارعین اور فوج کے درمیان کوئی مثبت معاہدہ طے پا جائے گا اور کہا کہ فوج کا یہ بھی ماننا تھا کہ ان کا اس زمین کو حاصل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ۔ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ مختلف تجاویز پر بات ہو چکی ہے اور اب مزارعین کی جانب سے جواب 17 جنوری کواسلام آباد میں سماعت کے دوران دیا جائے گا کہ آیا وہ ان تجاویز کو تسلیم کرتے ہیں یا نہیں۔اس سماعت میں عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما، پنجاب حکومت کے افسران اور پاک فوج کا ایک نمائندہ موجود تھا۔فوج کی طرف سے موجود نمائندے نے 31 دسمبر کو اسلام آباد میں نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس میں اوکاڑہ ملٹری فارمز کے حوالے سے ہونے والی ایک سماعت میں بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ فوج اوکاڑہ ملٹری فارمز کی ملکیت چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ فوج کے پاس صرف زمین کا کنٹرول ہے۔ابھی تک کچھ طے نہیں ہوا لیکن ہم اُس طرف گامزن ہیں۔ 31 دسمبر 2018 کو ہونے والی سماعت میں یہ بات سامنے رکھی گئی تھی کہ مزارعین کو تنگ نہیں کیا جائیگا اور ان کے خلاف فوجداری کے 80 مقدمات واپس لے لیے جائیں گے۔ ساتھ ہی پاک فوج نے بھی واضح کر دیا ہے کہ ان کو ملٹری فارمز کی ملکیت نہیں چاہیے کیونکہ زمین دراصل پنجاب حکومت کی ہے۔ یہ بات بھی سامنے رکھی گئی کہ بٹائی ملٹری فارمز انتظامیہ کو نہیں دی جائے گی جو اس کا مالک ہے اس سے بات کی جاسکتی ہے۔ادھر عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکریٹری، فاروق طارق نے کہا کہ ہم نے بٹائی دینے پر رضامندی ظاہر نہیں کی ۔اگر حکومت ہم سے بٹائی لینا چاہے تو اس پر ہم آنے والے ہفتوں میں اوکاڑہ، خانیوال اور سرگودھا میں میٹنگ کریں گے۔ اس میٹنگ میں ہم تجاویز تیار کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ یہ بات بھی کی گئی ہے کے پچھلے 18 سال کی بٹائی معاف کی جائے گی لیکن اس کے بعد سے بٹائی دینی پڑے گی۔واضح رہے کہ اوکاڑہ ملٹری فارمز 18ہزار ایکڑ زمین ہے جس میں سے 5ہزار ایکڑ فوج کے ہاتھ میں ہے جبکہ 13ہزار مزارعین کے پاس ہے۔ان زمینوں پر زیادہ تر گندم، مکئی اور چاولوں کی کاشت ہوتی ہے۔ فوج کا پہلے مؤقف تھا کہ ریونیو اتھارٹی کے مطابق زمین ان کی ہے جو برٹش راج کے بعد ان کے حصے میں آئی تھی اس لیے کسانوں کو اگائی ہوئی فصل کا کچھ حصہ بٹائی کے طور پر ان کو دینا ہوگا۔دوسری جانب کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ زمین ان کے آباؤ اجداد کی ہے۔ برٹش راج کے بعد زمینیں فوج کو چلی گئیں جس کے نتیجے میں کسان فوج کو کئی سال تک ان زمینوں پر اگنے والی کاشت کا حصہ دیتے رہے۔سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں کسانوں سے کہا گیا کہ یہ زمینیں ٹھیکے پر لے لیں۔ مزارعین نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ ان کو لگا کہ ٹھیکا بھی بڑھا دیا جائے گا اور ایک وقت پر ٹھیکا کینسل کر کے ان سے ان کی زمینیں خالی کروا دی جائیں گی۔2000 میں انجمنِ مزارعینِ پنجاب نے نعرہ لگایا تھا کہ ان زمینوں پر مزارعین کا حقِ وراثت ہے اور پاکستان میں ٹھیکے پر کام کرنے والوں یا رہنے والوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ۔

Comments (0)
Add Comment