سپریم کورٹ نے 18 ویں ترمیم کی تشریح کا عندیہ دیدیا

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی)چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ وفاق پر صوبوں میں اسپتال بنانے پر پابندی نہیں ،جبکہ پارلیمنٹ میں 18 ویں ترمیم پر بحث نہیں ہوئی۔سپریم کورٹ میں 18 ویں ترمیم کے بعد ٹرسٹ اسپتالوں کی صوبوں کو منتقلی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ نے اسپتالوں کی منتقلی کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جناح اسپتال کو وفاق کے تحت کام جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ عمارت صوبے میں ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ صوبوں کو منتقل ہو جائے گی، قانون سازی کے لیے پارلیمان سپریم ادارہ ہے، دنیا بھر میں آئینی ترمیم سے پہلے بحث ہوتی ہے ،کیونکہ وہ آئین کی تشریح کے لیے اہم ہوتی ہے، پارلیمنٹ میں 18 ویں ترمیم پر بحث نہیں ہوئی، ہمارے ملک میں بغیر بحث کے ترمیم کیسے منظور ہوتی ہیں۔وکیل رضا ربانی نے کہا کہ یہ درست ہے 18 ویں ترمیم پر پارلیمنٹ میں سیر حاصل بحث نہیں ہوئی، تاہم ترمیم کا مسودہ بنانے میں نو ماہ لگے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وفاق پر صوبوں یا شہر میں اسپتال بنانے اور سہولیات کی فراہمی پر پابندی نہیں، صوبے اگر لوگوں کو طبی سہولت نہ دے سکیں تو وفاقی حکومت اسپتال تعمیر کرے، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وفاقی حکومت اسپتال بنا کر تباہ و برباد کرنے کے لئے صوبے کے حوالے کر دے۔وکیل رضا ربانی نے کہا کہ عدالت یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے پارلیمنٹ کو کہہ دے۔اس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کرکے پارلیمنٹ نے اپنا کام کر دیا، اب 18 ویں ترمیم کی تشریح عدالت کا کام ہے، یہ معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ کو نہیں بھیج رہے، قانون کی تشریح وہ ہے ،جو سپریم کورٹ کہے گی۔دریں اثناسپریم کورٹ نے شہری علاقوں میں زمین کے انتقال میں پٹواری کا کردار ختم کردیا، ساتھ ہی زبانی منتقلی پر پابندی عائد کرتے ہوئے پٹوار خانے (ریونیو حکام کے دفاتر) کو صرف ریونیو ریکارڈ کی حد تک محدود کردیا۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ جائیداد کی خریدوفروخت رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے ذریعے ہوگی ۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے شہری علاقوں میں پٹواریوں، قانون گو اور تحصیل داروں سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس دوران صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنزئی پیش ہوئے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جہاں لینڈ ریونیو کا کوئی تخمینہ نہیں وہاں پٹوارخانے کیسے کھلے ہیں، جس پر امان اللہ کنزئی نے کہا کہ قانون کی تشریح کا معاملہ ہے۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس سے متعلق میرا ہی فیصلہ ہے، پٹوار خانے بند کردیے ہیں، حکومت کو دھیلا بھی نہیں ملے گا۔سماعت کے دوران وکیل پنجاب حکومت نے بتایا کہ دیہی علاقوں میں زمین کی فروخت زبانی ہوئی ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شاید آج ہم زمین کی زبانی فروخت بند کردیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ دنیا چاند پر چلی گئی ہے اور ہمارے یہاں اب تک پٹواری رجسٹر لے کر بیٹھے ہوتے ہیں، یہاں ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کیوں نہیں ہوسکتا۔اس پر محکمہ ریونیو کے نمائندے نے بتایا کہ خسرہ نمبر سے زمین منتقل ہوتی ہے، جس پر جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ ریکارڈ کہاں سے آجاتا ہے، شہروں میں تو ماسٹر پلان ہوتا ہے، جو علاقے ماسٹر پلان میں نہیں آتے وہاں زمین کی فروخت ایسے ہوتی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ شہری علاقوں میں لینڈ ریونیو کا ریکارڈ ہے تو وہاں پٹوار خانوں کی کیا ضرورت ہے، پٹوار خانون نے لوٹ مچائی ہوئی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ریونیو اینڈ رجسٹریشن ایکٹ نافذ ہے ،وہاں پٹواری کا کیا کام ہے اور پٹواری صرف ریکارڈ کی حد تک محدود ہونا چاہیے۔بعد ازاں عدالت نے شہری اور سیٹلڈ علاقوں میں پٹوار خانوں کا کردار محدود کرتے ہوئے حکم دیا کہ پٹوار خانے صرف ریکارڈ رکھنے کے کام آئیں گے۔عدالت نے حکم دیا کہ پٹوار خانوں کا اب زمین کے انتقال میں کوئی کردار نہیں ہوگا ،جبکہ شہری علاقوں میں زبانی انتقال بھی نہیں ہوگا اور جائیداد کا انتقال صرف لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ سیل ڈیڈ کے ذریعے ہی ہوگا۔سپریم کورٹ نے کہا کہ جہاں لینڈ ریونیو ایکٹ نافذ العمل ہے ،وہاں پٹواری کا کردار مکمل ختم ہوگا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر اس معاملے میں کوئی ابہام پیدا ہوتا ہے تو صوبائی حکومتیں قانون سازی کریں۔

Comments (0)
Add Comment