طالبہ کو ہراساں کرنے والا لیکچرار بچانے کیلئے جامعہ کراچی سرگرم

کراچی(اسٹاف رپورٹر)جامعہ کراچی انتظامیہ ہراساں کیس کے ملزم لیکچرار حسن عباس کو بچانے کیلئے سرگرم ہوگئی ہے،لیکچرار کوملازمت سے فارغ کرنے کے بجائے صوبائی محتسب کے اختیارات پر اعتراض اٹھالیا ہے،جامعہ کراچی کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا ہے کہ جامعہ خود مختار ادارہ ہے اور تقرری و فارغ کرنے کا اختیار صرف جامعہ سینڈیکیٹ کو ہے لہذا فیصلے سے متعلق ایک ماہ کی مہلت مانگی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق جامعہ کراچی کے ہراساں کیس پر سینڈیکیٹ کا اجلاس 3 جنوری 2018کو منعقد ہونا تھا تاہم کورم پورا نہ ہونے کی وجہ سے اجلاس بغیر نتیجے پر پہنچے ہی برخاست کردیا گیا۔ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ جامعہ انتظامیہ نے صوبائی محتسب کی جانب سے دیئے گئے فیصلے پر قانونی نقطے نظر پر نظر ثانی کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ ملزم لیکچرار حسن عباس کو ملازمت سے فارغ کرنے کی سفارشات کے بجائے صوبائی محتسب نے خود ہی فارغ کرنے کا فیصلہ سنا دیا ہے جبکہ جامعہ تو خود مختار ادارہ اور گریڈ 17اور اس سے زائد کی ملازمت پر بھرتی و فارغ کرنے کا اختیار صرف جامعہ سینڈیکیٹ کو ہے۔ ذرائع کے مطابق جامعہ انتظامیہ نے مذکورہ فیصلے پر صوبائی محتسب سے فیصلے پر عملدرآمد کے سلسلے میں ایک ماہ کی مہلت مانگ لی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ متاثرہ طالبہ شفا امتیاز کی جانب سے صوبائی محتسب برائے تحفظ خواتین ورکرز میں گزشتہ سال 19جون کو لیکچرار حسن عباس کے خلاف شکایت نمبر 28(KHI-S)/2018درج کرائی گئی تھی،جس کا فیصلہ صوبائی محتسب کی جانب سے گزشتہ سال 20دسمبر کو سنایا گیا تھا اور فیصلے میں صوبائی محتسب نے متاثرہ طالبہ کی جانب سے لگائے گئے تمام الزامات کو درست قرار دیتے ہوئے لیکچرار حسن عباس کو فوری طور پر ملازمت سے فارغ کرنے اور متاثرہ طالبہ کو 30روز کے اندر 50ہزار روپے بطور ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ اعتراض کو لے کر عدالت عالیہ سے رجوع کرنے پر غور کیا جا رہا ہے جبکہ ملزم لیکچرار حسن عباس نے مذکورہ فیصلے کو لے کرسندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرلیاہے۔ذرائع کے مطابق مذکورہ آئنی درخواست 26دسمبر کو یعنی فیصلے کے 6روز بعد دائر کی گئی ہے،جامعہ کراچی کی جانب سے مذکورہ جنسی ہراساں کیس کی انکوائری کمیٹی کی جانب سے 18مئی 2018کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا تھا کہ مذکورہ واقعہ استاد اور انتظامیہ کی نا اہلی ہے۔ کمیٹی نے نشاندہی کی کہ درخواست گزار نے شعبہ کے چیئرمین اور شعبہ کے مشیر طلبہ امور کو شکایت نہیں کی بلکہ میڈیا کے ذریعے استاد اور جامعہ انتظامیہ پردباؤ ڈالا۔ کمیٹی نے اپنی سفارشات میں زور دیا کہ طالبہ شفا امتیاز اورلیکچرارحسن عباس قصور وارہیں اور دونوں کو خلاف کارروائی کی جائے۔جامعہ پروقار ادارہ ہے جہاں ہزاروں طالب علم، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ موجود ہے اور یہ ضروری ہے کہ جامعہ سے متعلق اساتذہ،طالبہ علموں اور انتظامی امور کے عملے کے لئےضابطہ اخلاق واضح کیا جائے۔ ضابطہ اخلاق طالب علموں سے داخلے کے وقت جبکہ اساتذہ اور انتظامی امور کے عملے سے سرکیولر کے ذریعے کرایا جائے جس میں جامعہ سے جڑے ہر فرد کے لئے حدود واضح ہو۔کمیٹی نے بتایا کہ مذکورہ کیس عدالت میں زیر سماعت اور فیصلہ کرنے سے قبل اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے تاہم جامعہ انتظامیہ نے اپنی بنائی ہوئی اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی سفارشات کو بھی نظر انداز کردیا تھا جس کے بعد متاثرہ طالبہ نے صوبائی محتسب سے رجوع کیا تھا،واضح رہے کہ اس سے قبل بھی جامعہ کراچی میں صابر مائیکل ،ساجد و دیگر استاد پر طالبہ کو ہراساں کرنے کے الزامات لگائے جا چکے ہیں اور جن کے ٹھوس شواہد بھی دیئے گئے تاہم جامعہ انتظامیہ نے کسی بھی ملزم کے خلاف کبھی کوئی کارروائی نہیں کی اور دانستہ طور پر کیسز میں اتنی تاخیر کی گئی متاثرہ طالبہ ہی جامعہ سے فارغ التحصیل ہوچکی ہیں جس سے ایسے کیسز کو دبانے کی روایت بر قرار رہی۔

Comments (0)
Add Comment