لیاری ایکسپریس وے – بحالی منصوبے کے 23 ہزار پلاٹ ٹھکانے لگانے پر متحدہ – پی پی رہنماؤں کیخلاف تحقیقات

کراچی (رپورٹ: نواز بھٹو) نیب نے لیاری ایکسپریس وے متاثرین کی بحالی منصوبے کے 23 ہزار سے زائد پلاٹ ٹھکانے لگانے پر متحدہ اور پی پی رہنماؤں کیخلاف تحقیقات کا دائرہ مزید وسیع کر دیا ہے۔ شہید کوٹہ پر متاثرین کے2900 سے زائد پلاٹ متحدہ کے کارکنوں کو الاٹ ہوئے اور 23ہزار734پلاٹس چائنا کٹنگ کی نذر کر دیئے گئے۔ منصوبے کے صدر دفتر پر چھاپے کے دوران ریکارڈ نہ ملنے پر نیب حکام کو بتایا گیا کہ ریکارڈ ایگزیکٹو انجنیئر کی تحویل میں ہے۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر کی طرف سے 10سالہ ریکارڈ نہ ملنے پر نیب حکام محکمہ بلدیات پہنچ گئے۔ سیکریٹری بلدیات نے ریکارڈ کی فراہمی یقینی بنانے کی ذمہ داری ڈپٹی سیکریٹری کو سونپ دی۔ تفصیلات کے مطابق نیب کراچی نے لیاری ایکسپریس وے متاثرین کے بحالی منصوبے میں اربوں کی کرپشن کے ٹھوس شواہد ملنے پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ دستیاب ریکارڈ کی چھان بین سے انکشاف ہوا کہ کئی پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی تبدیلی کے باوجود کرپشن میں ملوث افسران کو بڑے پیمانے پر سیاسی پشت پناہی ملتی رہی ہے۔ منصوبے میں ہونے والی چائنا کٹنگ، پلاٹوں کی دہری و تہری الاٹمنٹ، متاثرین کی مختلف فہرستوں اور تعداد میں ہوشربا اضافے سے حاصل ہونے والی بھاری رقوم سے ناصرف ایک لسانی جماعت کے رہنما انتخابات لڑتے رہے ہیں، بلکہ یہ رقم لندن بھی بھجوائی جاتی رہی ہے۔ تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حکمران صوبائی جماعت کی اہم شخصیات نے سیکڑوں پلاٹوں کی خرید و فروخت کی، ان میں سے کچھ کئی برس سے فرار ہو کر بیرون ملک مقیم ہیں۔ اس بات کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے کہ منصوبے میں کرپشن سے حاصل رقم کیسے باہر بھیجی گئی۔ تحقیقات سے یہ معاملہ بھی سامنے آیا کہ تیسر ٹاؤن، ہاکس بے و بلدیہ کے نقشوں میں موجود مساجد، مندر، چرچ، اسکول، اسپتال، گراؤنڈز، فٹ پاتھ بھی چائنا کٹنگ کی نذر ہو چکی ہیں۔ سیکڑوں کمرشل پلاٹس2 سے 3پلاٹوں میں تقسیم کر کے الاٹ کئے گئے۔ اس ضمن میں ریکارڈ کیلئے متعدد بار پروجیکٹ ڈائریکٹر کو لیٹر بھیجنے کے باوجود نیب کو خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔ آخری 2لیٹرز کے ذریعے 30دسمبر 2018تک تمام تر ریکارڈ مانگا گیا تھا، جو فراہم نہیں کیا گیا۔ نیب نے سیکریٹری بلدیات و لیاری ایکسپریس وے بحالی منصوبے کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کے نام حالیہ لیٹر تحریر کیا ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ نیب حکام نے ڈائریکٹر لینڈ ارشد عباس کے ہمراہ منصوبے کے صدر دفتر پر چھاپہ مارا تو معلوم ہوا کہ دفتر میں کوئی سائٹ پلان یا مکمل پی سی ون نہیں۔ معلوم کرنے پر بتایا گیا کہ یہ اشیا ایگزیکٹو انجینئر کی تحویل میں ہیں۔ ڈائریکٹر لینڈ نے ایگزیکٹو انجینئر تیسر ٹاؤن، ہاکس بے و بلدیہ منور اقبال اور محمد آصف خان کو لے آؤٹ پلان، پی سی ون، نظر ثانی شدہ پی سی ون ودیگر ریکارڈ کے ہمراہ پیش ہونے کی ہدایات کی ہیں۔ لیٹرز کے جواب میں پروجیکٹ ڈائریکٹرز کے بجائے کچھ افسران نامکمل ریکارڈ دے کر چلے گئے۔ نیب نے واضح کیا ہے کہ ایسی حرکت تحقیقات پر اثر انداز ہونے و ریکارڈ چھپانے کی کوشش تصور کی جائے گی۔ پروجیکٹ ڈائریکٹر لیاری ایکسپریس وے بحالی منصوبے کو خود تمام ریکارڈ کے ہمراہ ڈپٹی ڈائریکٹر محمد رضوان کے روبرو پیش ہونے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انہیں منصوبے کے قواعد و ضوابط، شرائط اور مختلف اوقات میں جاری کی گئی پالیسی اور ہدایات کا ریکارڈ پیش کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ منصوبے کا مجوزہ، منظور شدہ و نظر ثانی شدہ ماسٹر پلان، تقسیم کئے گئے رہائشی، کمرشل، رفاہی پلاٹوں کی تفصیلات، موجودہ حالت، متاثرین کی مکمل فہرست، الاٹمنٹ ریکارڈ، پلاٹ نمبر، اصل اور نظر ثانی شدہ پی سی ون کی تمام تر تفصیلات، فنڈز کے اجرا اب تک کئے گئے تمام اخراجات کی فراہم کی ہدایت کی ہے۔ پروجیکٹ کیلئے ٹینڈر دستاویزات اور ٹھیکیداروں کو کی گئی ادائیگیوں کی تفصیلات، منصوبے کے نام پر کھولے گئے بینک اکاؤنٹس، 2008سےاب تک تعینات افسران و پروجیکٹ ڈائریکٹرز کی تمام تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔ 2008 سے اب تک ٹھیکیداروں اور متاثرین کو کی گئی ادائیگی کی تفصیلات، چیک نمبرز، الاٹ و تعمیر دکانوں کی تمام تفصیلات، الاٹمنٹ آرڈرز اور دکان دینے کے طریقے کی دستاویزات، منتقل کئے جانے والے پلاٹس الاٹیز کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔ لیٹر میں قبضہ کئے گئے پلاٹوں کی نشاندہی کے لیٹر سے پلاٹس کی تفصیلی فہرست بھی منسلک ہے۔ سیکریٹری بلدیات سندھ خالد حیدر شاہ نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہا ہے کہ ریکارڈ فراہمی کیلئے حکام کو ہدایات دیدی گئی ہیں۔10برس کا ریکارڈ 10دنوں میں پیش کرنا ممکن نہیں۔ حکام کو کہا گیا ہے کہ جو ریکارڈ ملتا جائے، وہ نیب کو بھیجا جائے۔

Comments (0)
Add Comment