اسلام آباد(نمائندہ خصوصی) جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں پی پی قیادت کو عبوری ریلیف مل گیا۔ سپریم کورٹ نے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری اور وزیراعلی سندھ مرادعلی شاہ کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے کا حکم دے دیا جبکہ کیس نیب کو بھجوا دیا اور کہا ہے کہ اس کی تحقیقات 2ماہ کے اندر مکمل کی جائے۔ چیف جسٹس نے مشترکہ تفتیشی ٹیم کو بھی کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بلاول بھٹو زرداری تو معصوم بچہ ہے، جے آئی ٹی رپورٹ سے وہ حصہ حذف کردیا جائے جہاں اس کا نام ہے۔ جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ اتنے شواہد ہیں کہ آنکھیں بند نہیں کرسکتے۔اومنی گروپ اور سیاستدانوں کے درمیان گٹھ جوڑ کا جائزہ لیں گے۔ پیر کے روز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں بینچ نے جعلی اکاؤنٹس کیس کی سماعت کی، پیپلز پارٹی کے وکیلا فاروق ایچ نائیک اور لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ دونوں کمپنیوں میں جو بلاول بھٹو زرداری کا حصہ بتایا جا رہا ہے اس کے مطابق رقم کی ایک منتقلی اس وقت ہوئی جب بلاول کی عمر ایک سال تھی، اور دوسری اس وقت ہوئی جب وہ چھ سال کے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جے آئی ٹی کی رپورٹ جلد بازی میں تیار کی گئی اور کا کوئی جواز سمجھ نہیں آیا۔ اس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ’ہم نے نیب کے تقدس کو محفوظ رکھنا ہے، ادارہ اس طرح کے کیسز نہ لے جن کی بنیاد حقائق پر نہیں ہے۔ اگر بلاول کا تعلق اس مقدمے سے نہیں بنتا تو ای سی ایل کے ساتھ جے آئی ٹی رپورٹ سے بھی نام نکال دیا جائے۔فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اورفریال تالپور کابراہ راست کوئی تعلق نہیں، بد نیتی سےبدنام کرنے کی کوشش کی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ بد نیتی کا لفظ استعمال نہ کریں، جس پر نائیک نے الفاظ واپس لے لئے۔ چیف جسٹس نے وزیراعلی سندھ کا نام ای سی ایل سے یہ کہہ کر ہٹانے کو کہا کہ ’کیا ہم یہ تصور کر کے بیٹھے ہیں کہ وزیر اعلیٰ اپنی کرسی چھوڑ کر بھاگ جائیگا؟ اس سے باہر ممالک میں کیا تاثر جائیگا؟ ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں مختلف لوگوں کے نام شامل کرنے سے متعلق معاملے پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بتایا کہ عدالتی حکم پر ای سی ایل کے معاملے پر وفاقی کابینہ نے ایک جائزہ کمیٹی قائم کردی ہے جس کا اجلاس 10 جنوری کو ہونا ہے۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ٹھیک ہے اب ای سی ایل والے معاملے پر جو بھی ہوگا وہ وہی کریں گے۔سماعت کے دوران اومنی گروپ کے معاملے پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اومنی گروپ کا سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ دیکھنا ہے۔ ایسا مرکب (مکسچر) کیا گیا ہے کہ اس کی لسی بن گئی ہے، کیا اوپر سے فرشتے آکر جعلی بینک اکاؤنٹس کھول گئے؟جس پر وکیل اومنی گروپ منیر بھٹی نے کہا کہ عدالت اجازت دے تو معاملے کی اصل تصویر پیش کرسکوں۔ اومنی گروپ نے شوگر ملز قانون اور طریقہ کار کے مطابق خریدیں، یہ غلط تاثر ہے کہ اس کا سندھ حکومت سے کوئی گٹھ جوڑ ہے۔ اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ ملز مفت تو نہیں لی ناں، پیسے جعلی اکاؤنٹس سے آئے۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جب ریفرنس دائر ہو تو اپنا دفاع کر لیجیے گا۔چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ سندھ میں ایسےٹھیکےدیکھے جوکاغذوں میں مکمل ہو گئے تھے ، ایسےٹھیکوں کاہم نےبعدمیں کام کرایا، جےآئی ٹی نے بھی ایسےہی ٹھیکوں کاذکرکیاہے، جنہوں نے 50ہزارکبھی نہیں دیکھاان کےاکاؤنٹس میں 8 ،8 کروڑ فرشتے ڈال گئے، ہم اس کومنطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ اتنا مواد آنے کے بعد معاملے کو کیسے ختم کر سکتے ہیں، اصل مسئلے سے ہٹ کر ای سی ایل پر توجہ مرکوز نہ کریں۔چیف جسٹس نے کہا کہ وکلا نے قسم کھائی ہے کہ اصل مقدمے کو چلنے نہیں دینا اوراعتراض ہے کہ جے آئی ٹی نے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔منیر بھٹی نے کہا کہ جے آئی ٹی نیب کو ریفرنس دائر کرنے کی سفارش نہیں کر سکتی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کی سفارش پر اعتراض ہے تو ہم نیب کو معاملہ بھیج دیتے ہیں۔ چارٹ دیکھا ہے کہ کس طرح کس سال سے اوپر اٹھے ہیں، کیسے سندھ بینک اور سمٹ بینک بنا لیے۔ اب ان بینکوں کو ضم کر رہے ہیں اور اس کا مقصد معاملے پر مٹی ڈالنا ہے۔دلائل دیتے ہوئے منیر بھٹی کا مزید کہنا تھا کہ سبسڈی کے معاملے پر کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا گیا، جے آئی ٹی کے دیے گئے اعدادوشمار ریکارڈ پر نہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ لیئرنگ کے بارے میں جانتے ہیں،نفی میں جواب آنے پر انہوں نے کہا کہ پھر آپ دلائل کیوں دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کو تو معاملہ ٹرائل عدالت میں بھجوانے پر اصرار کرنا چاہیے، اگر ہم اس رپورٹ کو قبول کرلیں تو آپ کے پاس کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا۔جس پر منیر بھٹی نے کہا کہ اس میں فاروق ایچ نائیک پر بھی الزامات ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ فاروق ایچ نائیک ہمارے بھی تو ہیں، آپ ان کی فکر چھوڑیں۔اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کے وکیل شاہد حامد نے دلائل دیے کہ سپریم کورٹ نے اس مقدمے کی سست روی پر ازخود نوٹس لیا تھا، اب تو یہ تفتیش ہو گئی ہے اس کو نمٹا دیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہم اتنے سادہ ہیں، جعلی اکاونٹس کا تعلق بظاہر سیاستدانوں اور اومنی گروپ سے بنتا ہے، ریکارڈ پر کافی مواد موجود ہے۔ ہم اس مقدمے کو ختم نہیں کریں گے بلکہ آگے بھی چلائیں گے۔جس پر شاہد حامد نے کہا کہ انور مجید اور عبدالغنی مجید اگست سے گرفتار ہیں، استدعا ہے کہ ٹرائل جلد مکمل کیا جائے۔ ایف آئی اے عبوری چلان جمع کرا چکا ہے، جس کے بعد جے آئی ٹی بنانے کی استدعا کی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ مقدمہ ایف آئی اے کا ہے اسے ہی فیصلہ کرنے دیا جائے، عدالت جے آئی ٹی رپورٹ کی توثیق نہ کرے اور جے آئی ٹی میں شامل نہ ہونے والی اومنی گروپ کی کمپنیوں کو چلنے دیا جائے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اومنی گروپ نے بندر بانٹ سے تمام جائدادیں اور کمپنیاں بنائیں، اربوں روپے کی چینی رہن رکھوائے بغیر ہی اربوں روپے قرض لیا۔ جواب دیں کہ چینی کہاں ہے؟ ٹریکٹرز پر سبسڈی کے معاملے پر اومنی گروپ کے وکیل نے بتایا کہ تمام حکومتوں نے ٹریکٹر پر سبسڈی دی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اومنی گروپ نے کاغذوں میں ٹریکٹر خریدے، اور اربوں روپے سبسڈی کے حاصل کیے، دوران سماعت چیف جسٹس نے جے آئی ٹی کے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل میں شامل کیوں کیا گیا؟وہ تو معصوم بچہ تھا، کیا جے آئی ٹی نے کسی کو بدنام کرنے کے لیے ایسا کیا؟ جے آئی ٹی نے تو اپنے وزیر اعلیٰ کی عزت نہیں رکھی اور ان کا نام بھی ای سی ایل میں ڈال دیا۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کو اس حوالے سے مطمئن کروں گا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جے آئی ٹی کی سفارشات کو منظور کرنے کا فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کے پابند نہیں ہیں۔ جرم بنتا ہے یا نہیں یہ فیصلہ عدالت کرے گی۔بعد ازاں عدالت نے بلاول بھٹو کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا اور ریمارکس دیے کہ جب تک کوئی نئی انکوائری نہیں ہوتی، جے آئی ٹی رپورٹ کا وہ حصہ ختم (ڈیلیٹ) کریں جس میں بلاول بھٹو کا نام ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر نیب چاہے تو وہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو اپنی تحقیقات کی بنیاد بنانے کے بجائے ایک اطلاعی رپورٹ کے طور پر پیش کر سکتی ہے۔عدالت نے پیپلز پارٹی کے رہنماء فاروق ایچ نائیک اور اٹارنی جنرل انور منصور کے بھائی عاصم منصور کا نام بھی ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا اور کہا کہ نیب چاہے تو ان دونوں شخصیات کو الگ الگ طلب کرسکتی ہے۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ کہا جا رہا تھا کہ الیکشن نہیں ہوں گے، ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا ایک منٹ کی تاخیر نہیں ہو گی، ہم نے پہلے ہی کہہ دیا تھا جمہوریت نہ رہی تو ہم نہیں رہیں گے۔ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم بھی جمہوریت کا ہی تحفظ چاہتے ہیں، بلاول بھٹو کے حوالے سے جے آئی ٹی کی آبزرویشن پر تحفظات ہیں، اگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا گیا تو جمہوریت کیسے چلے گی، ہمیں سندھ حکومت سے الگ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کو شامل تفتیش کیے بغیر ان کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صرف سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بلاول بھٹو زرداری اور مرادعلی شاہ کے نام شامل کیے گئے۔بعد ازاں عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کیس میں اپنے حکم میں کہا کہ نیب اس سارے معاملے کی ازسرِ نو تفتیش کرے اور اسے 2 ماہ میں مکمل کرکے رپورٹ پیش کرے،تفتیش کے بعد اگر کوئی کیس بنتا ہے تو بنایا جائے۔عدالت نے نیب کو بھی ہدایت کی کہ نیب جسے چاہے سمن کرکے بلا سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی اس کیس پر اپنے طور پر کام کرتی رہے اور کوئی چیز سامنے آتی ہے تو نیب کو فراہم کرے۔عدالت نے جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی نیب کو بھجوانے کا حکم دیا ہے۔سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں مزید کہا کہ جے آئی ٹی اس کیس پر اپنے طور پر کام کرتی رہے اور کوئی چیز سامنے آتی ہے تو نیب کو فراہم کرے۔اور اگر کوئی ریفرنس بنتا ہے تو بنائے۔سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان نے اپنا جواب جمع کرایا اور جے آئی ٹی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بتایا کہ اٹلس بینک، مائی بینک اور عارف حبیب بینک کا انضمام اسٹیٹ بینک کے منظور شدہ سویپ کے مطابق ہوا۔جے آئی ٹی نے اس حوالے سے بے بنیاد آبزرویشن دیکرکردار کشی کی۔عدالت آبزویشن کو ختم کرے۔
—————————
اسلام آباد( اخترصدیقی)سابق صدرآصف زرداری ،فریال تالپور سمیت دیگراہم شخصیات کے خلاف جعلی اکاؤنٹس کے معاملے پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ سمیت دیگراہم ریکارڈحاصل کرلیا رواں ہفتے باقاعدہ تحقیقات کیلئے منظوری دیے جانے اور کراچی نیب آفس میں درج بالاشخصیات کی پیشیاں شروع ہونے کا امکان ہے ۔بلاول بھٹوزرداری کوبھی طلب کیاجائے گا مگران کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں انکوائری جلدختم ہونے کی توقع ہے۔ ذرائع کے مطابق قومی احتساب بیوروسال 2019میں ملک کی اہم ترین سیاسی شخصیات کے مستقبل کے لیے بہت زیادہ اہمیت اختیار کرگیا ہے، نیب سابق وزیراعظم نوازشریف، شہبازشریف، خواجہ آصف، خواجہ سعدرفیق ،اسحاق ڈار ،مریم نواز،حمزہ شہبازشریف ،مریم اورنگ زیب ،انوشہ رحمان ،سابق وزیراعظم راجاپرویزاشرف، سید یوسف رضاگیلانی کے بعد اب سابق صدر آصف علی زرداری ،فریال تالپورسمیت دیگررہنماؤں کے حوالے سے تحقیقات مکمل کرکے رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرے گا۔مسلم لیگ ن سے وابستہ 28سے زائد ایم این ایزاور ایم پی ایزکے خلاف بھی تحقیقات کاآغاز کیاجارہاہے جبکہ پیپلزپارٹی کے 12اہم ترین شخصیات بھی نیب کے چنگل میں پھنس چکی ہیں جن کے سیاسی مستقبل پر کسی بھی وقت سوالیہ نشان لگ سکتاہے۔ ذرائع نے’’ امت‘‘ کوبتایا ہےکہ سابق صدرآصف علی زرداری اور فریال تالپورسمیت سندھ کی اہم ترین شخصیات کونیب کراچی آفس میں پیشیاں بھگتناہوں گی ۔ اس ضمن میں باقاعدہ ایک سوال نامہ تیار کیاجائیگاجس میں سوالات کی تعدادتین سوسے زائد ہوسکتی ہے جس میں جعلی اکاؤنٹس سمیت دیگر معاملات سے متعلق معلومات حاصل کی جائیں گی۔نیب کے سابق پراسکیوٹرذوالفقار احمدبھٹہ ایڈووکیٹ نے امت سے گفتگومیں بتایا کہ نیب کے پاس بہت زیادہ اہم ترین مقدمات تفتیش کیلئے موجودہیں اور اب زرداری کامعاملہ بھی ان کے سپردہونے کے بعدنیب کی اہمیت سیاسی شخصیات کیلئے اور بھی بڑھ گئی ہے ۔اگلے عام انتخابات میں ان اہم ترین شخصیات کے حصہ لینے پر نیب کی تحقیقات بھی بہت زیادہ اثراندازہوگی اور ان کے سیاسی مستقبل کیلئے بھی پریشانی کاباعث بن سکتی ہے ۔ نیب حکام نے محسوس کیاکہ مزیدتحقیقات کی ضرورت ہے تو سابق صدرآصف علی زرداری ،اومنی گروپ کے مالکان سمیت دیگرکے خلاف کراچی کی احتساب عدالت میں دوسے تین ریفرنس دائرکیے جاسکتے ہیں جس میں ان افرادکوپیش ہوناہوگا۔ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ یہ سارا چکربالکل میاں نوازشریف کے خاندان جیسا دکھائی دے رہاہے ریفرنس فائل ہوں گے اور پھر پیشیاں شروع ہوں گی اور اس کے بعد گرفتاری اور سزاکے معاملا ت سامنے آئیں گے۔ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہاکہ نیب کوضرورت ہوئی تووہ دیگر سرکاری اداروں سے بھی متعلقہ کیس میں ریکارڈ مانگ سکتاہے اس کیلئے ایس ای سی پی ،ایف بی آر،ایف آئی اے سمیت دیگرادارے شامل ہیں۔نیب ترجمان نے رابطہ کرنے پر بتایاکہ سپریم کورٹ کے احکامات موصول ہوتے ہی نیب اپناکامشروع کردے گانیب قانون کے مطابق ہی تمام معاملات کاجائزہ لیاجائیگا۔