اسلام آباد(خبرایجنسیاں) سینیٹ کمیٹی اطلاعات نےمیڈیا کو اشتہارات پالیسی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بریفنگ کیلئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو طلب کرلیا ۔اراکین کمیٹی نے کہا کہ حکومت کی اشتہارات پالیسی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے،پالیسی بناتے وقت قائمہ کمیٹی کو اعتماد میں لینا انتہائی ضروری ہے ،حکومت کی ڈرافٹ کردہ پالیسی پر بے شمار تحفظات ہیں۔سوموار کو سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات ،قومی تاریخ وادبی ورثہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر فیصل جاوید کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔ وزارت اطلاعات ونشریات کی طرف سے تیارکردہ قومی اشتہارات پالیسی، سینیٹر رحمن ملک کے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی الیکٹرانک میڈیا پر کردار کشی پروگرامز کے علاوہ سینیٹر محمد علی سیف کے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے ایک پرائیوٹ ٹی وی چینل پر پختونوں کے خلاف تضحیک آمیز پروگرامز اور سینٹر محمد عثمان خان کاکڑ کے عوامی اہمیت کے معاملہ برائے پختونز کے خلاف توہین آمیز سرکاری اشتہارات میں مواد چلانے کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ چیئرمین واراکین کمیٹی نے وزیراطلاعات و تشریات کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین نے کہا کہ آج کمیٹی اجلاس میں حکومت کی اشتہارات کی پالیسی کے حوالے سے انتہائی اہم ایجنڈے کو زیربحث لانا تھا جس میں وزیر اطلاعات کی شرکت انتہائی ضروری تھی ، اس پالیسی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ چیئرمین سینیٹر فیصل جاوید نے اشتہارات کے حوالے سے قومی پالیسی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو ضم کرنے سے معاملات میں بہتری نہیں آئے گی میکنزم واضح نہیں ۔انہوں نے کہا کہ اشتہارات کے بغیر معاملات چل ہی نہیں سکتے اور میڈیا کیلئے بھی اشتہارات انتہائی اہم ہیں ۔ ڈرافٹ پالیسی میں یہ تاثر ہے کہ گروتھ آف میڈیا میں رکاوٹ ، ریجنل کوٹہ ، تقرریاں اور اشتہارات کمپنیوں کو نکال جارہا ہے اور پروڈکشن ہاؤسز سے وزارت کس طرح ڈائریکٹ معاملات طے کر سکتی ہے ۔اشتہارات کے حواے سے ریٹ بڑھانے اور کم کرنے کا طریقہ کار ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا علیحدہ علیحدہ میکنزم ہوتا ہے ۔ میڈیا ویلیو ایڈیشن پرائیوٹ سیکٹر کو آفر کرتا ہے کہ اچھا بزنس کس طرح بنتاہے اس کا ذکر تک نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اداروں کے بجٹ میں پروجیکشن کیلئے بجٹ مختص کرنے سے بھی بہتری آسکتی ہے اور ویب سائٹ پر بھی معلومات و اشتہارات بہتری لا سکتے ہیں ۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی جانچنے کیلئے اس ملک کی آرٹ اور کلچر کی ترقی کو دیکھا جاتا ہے ۔ سینیٹر غوث محمد خان نیازی نے کہا کہ میڈیا مالکان اشتہارات کے بند ہونے کا بہانہ بنا کر بے شمار لوگوں کو نوکریوں سے فارغ کر چکے ہیں اور کئی رپورٹرز کو تنخواہ تک نہیں ملتی ۔ رپورٹر عوام کے ترجمان ہوتے ہیں ۔ سیکرٹری اطلاعات و نشریات شفقت جلیل نے کہا کہ پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی قائم کیا جارہا ہے اور میڈیا سے متعلق شکایت کے ازالے کے حوالے سے قوانین تیار کیے جارہے ہیں۔ انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ گزشتہ برس 86 ارب کا پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بزنس ہوا تھا جو موجودہ سال 81.6 ارب کا رہا ۔ گزشتہ برس الیکٹرانک میڈیا نے 42 ارب کا بزنس کیا اور موجودہ سال 38 ارب کا تھا ۔ پرنٹ میڈیا نے گزشتہ برس20 ارب کا اور اس سال 19.5 ارب کا بزنس کیا البتہ ڈیجیٹل میڈیا کے بزنس میں بڑا فرق آیا ہے ۔ قائمہ کمیٹی نے ہدایت کی کہ وزارت کی اشتہارات کی پالیسی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں زیر بحث لائے بغیر کسی صورت منظور نہ کی جائے ۔ اراکین کمیٹی حکومت کی مرتب کردہ پالیسی کا ابتدائی جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں وزیر اطلاعات ونشریات کی موجودگی میں سفارشات مرتب کریں گے۔ کمیٹی نے اشتہارات سے متعلق سرکاری پالیسی پر بریفنگ کیلئے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو آئندہ اجلاس میں طلب کرلیا۔سینیٹر رحمن ملک کے عوامی اہمیت کے معاملے کا قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ سینیٹر رحمن ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ میں واضح طور پر کہا تھا کہ جے آئی ٹی یا عدالت میں جاری کیس کا جب تک فیصلہ نہ ہو میڈیا پر اس کی نہ بحث کی جائے اور نہ اچھالا جائے۔ یہ معاملہ صرف اپوزیشن کا نہیں بلکہ ہر سیاسی پارٹی کے رہنماؤں کا تمسخر اڑانا میڈیا کا وطیرہ بن چکا ہے۔ ایسا قانون بنایا جائے جس میں سیاستدانوں سمیت عوام کی میڈیا پر ہونے والی تذلیل اور تمسخر کو روکا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پیمرا کو کچھ پروگرامز کے بارے میں کہا گیا تھا اس کی رپورٹ کمیٹی اجلاس میں فراہم کی جائے۔ ملزم سے مجرم بننے کا انتظار ہونا چاہئے۔ ایسی بے شمار انکوائریاں ہیں جن میں لوگ بے گناہ ثابت ہوتے ہیں مگر میڈیا میں انہیں بدنام کر دیا جاتا ہے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ وزارت اطلاعات ونشریات نے اس حوالے سے ایک ڈرافٹ تیار کرنا تھا۔چار ماہ ہو چکے ہیں مگر کوئی ڈرافٹ تیار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ بہتر یہی ہے کہ معزز سینیٹر پرائیویٹ ممبر بل کے طور پر ایک بل تیار کریں اور کوشش کی جائے کہ آزادی صحافت کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ سینیٹر کامران مائیکل نے کہا کہ آزادی صحافت اپنی جگہ مگر میڈیا کو بے لگام بھی نہیں کیا جا سکتا۔ معاملات کو قانون کے مطابق چلانا چاہئے۔ سیکرٹری اطلاعات ونشریات نے کمیٹی کو بتایا کہ انفورسمنٹ کی کمی ہے۔وزارت ایک ٹرائبیونل قائم کرے گی جس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔