ماں بیٹی کے اغوا پر ڈہرکی میں مہر- لوند برادریاں آمنے سامنے

ڈہرکی (نمائندہ امت) ڈہرکی میں میلے سے واپس آنیوالی ماں بیٹی کے اغوا پر مہر اور لوند برادریاں آمنے سامنے آ گئیں۔ فریقین نے ایک دوسرے پر فائرنگ کی ،تاہم کوئی نقصان نہیں ہوا۔ ماں بیٹی کے اغوا کا الزام میلہ انتظامیہ پر لگایا گیا، جنہوں نے تشدد و تذلیل بھی کی۔ اور پولیس تماشا دیکھتی رہی۔ ایس پی نے تھانیدار کو معطل کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق ڈہرکی کے صحرائی علاقے میں گزشتہ رات گئے کھینجو تھانے کی حدود نور پیر پر لگنے والے میلے سے واپسی پر پنجاب سے بلوائی گئی ماں ڈانسر صائمہ اور اسکی نوجوان بیٹی گوری کو میلہ انتظامیہ نے مبینہ اغوا کرکے رات بھر تشدد و تذلیل کا نشانہ بنایا اور کپڑے پھاڑ دیئے، تشدد کی ویڈیو بھی ریکارڈ کی گئی، خواتین کے ساتھ ہونے والی تذلیل پر کھینجو پولیس خاموش تماشائی بنی رہی، خواتین کو اغوا کے معاملے پر مہر اور لوند برادری کے دو گروہوں میں تصادم ہوگیا اور ایک دوسرے پر فائرنگ کی۔ کھینجو پولیس اور مہربرادری کے بااثر وڈیرے کی مداخلت پر فریقین کے مابین تصفیہ کرایا گیا، جبکہ خواتین سے علاقے کے بااثر افراد نے ایس ایچ او کھینجو قائم الدین سومرو کی موجودگی میں میلہ انتظامیہ کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنے کا حلف لکھوایا، جس کے بعد کھینجو پولیس نے خواتین کو تحویل میں لیکر پنجاب پہنچایا، دوسری طرف بازیاب ہونے والی خواتین صائمہ اور گوری نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ گزشتہ رات ہم نور پیر میلہ سے واپس رحیم یار خان جارہی تھیں کہ راستے میں مہر برادری کے مسلح افراد حاجی خان مہر، سکھیرو مہر، کریم داد مہر، شہزاد مہر، سخی مہر اور دیگر نے گاڑی کو روک کر فائرنگ کرکے ہماری گاڑی کے ٹائر پھاڑ دیئے اور ہمیں ہتھیاروں کے زور پر دوبارہ میلے کی طرف لے گئے، جہاں پر تشدد کر کے ویڈیو بھی بنائی گئی، بعد میں ہم سے قانونی کارروائی نہ کرنے کی ایس ایچ او کھینجو کی موجودگی میں حلف لیا گیا اور ہمیں پولیس کی نگرانی میں پنجاب پہنچایا گیا، انہوں نے کہا کہ میلہ انتظامیہ نے ہمارے ساتھ بڑا ظلم کیا ہے۔ دوسری طرف ایس پی گھوٹکی ڈاکٹر اسد اعجاز ملہی نے نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او کھینجو قائم الدین سومرو کو معطل کردیا اور ڈی ایس پی اوباڑو اظہار لاہوری کو تحقیقات کرکے رپورٹ دینے کا حکم دیا ہے، ایس پی گھوٹکی کی طرف سے صرف ایس ایچ او کو معطل کیا گیا ہے جبکہ میلہ انتظامیہ کی طرف سے خواتین کو اغوا کرکے تشدد کرنے کا کوئی بھی نوٹس نہیں لیا گیا۔

Comments (0)
Add Comment