امن معاہدے پر18ماہ میں افغانستان سے انخلا کا امریکی منصوبہ تیار

کابل/واشنگٹن(امت نیوز/ایجنسیاں) امن معاہدہ ہونے پر امریکہ نے افغانستان سے18ماہ میں انخلا کا منصوبہ بنا لیا۔ مجوزہ دستاویز طالبان کے حوالے بھی کر دی گئی۔ دوسری جانب امریکہ میں جنگ بندی کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔ امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کی رکن اور 2020 میں ٹرمپ کی متوقع مخالف صدارتی امیدوار سینیٹر ایلزبتھ وارن نے کہا ہے کہ افغانستان سے بھی فوج کو واپس بلانا صحیح فیصلہ ہے۔طلوع نیوز کے مطابق امریکی پالیسیوں کی تشکیل میں بڑا کردار ادا کرنے والے تھنک ٹینک رانڈ(RAND)کارپوریشن نے امریکہ ، طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن معاہدے کی مجوزہ دستاویز تیار کی ہے جو طالبان سمیت سینئر افغان حکام، سیاستدانوں اور خطے کے اسٹیک ہولڈرز کے حوالے کر دی گئی ہے۔49صفحات پر مبنی دستاویز کو افغان تنازع کا جامع حل کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں مفاہمتی عمل کی کامیابی کے بعدحتمی امن معاہدے سے متعلق تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ مسودے میں کہا گیا ہے کہ جنگ مکمل بند کی جائے گی، افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لئے استعمال نہیں ہو گی، طالبان کو القاعدہ سمیت تمام مبینہ دہشت گرد گروپوں سے اظہار لاتعلقی کرنا ہوگا،18ماہ کی عبوری مدت میں امریکہ اور نیٹو افغانستان میں اپنا مشن مکمل کر کے3مراحل میں واپس جائیں گے۔ امریکہ کا سیاسی تعاون جاری رہے گا، مسودے میں تجویز کیا گیا ہے کہ افغان جماعتیں بین الاقوامی برادری کو دعوت دے سکیں گی کہ وہ ایک محدود ، چھوٹی افغانستان سپورٹنگ ٹیم تشکیل دیں جو بالخصوص انسداد دہشتگردی پر توجہ دے گی۔ دستاویز کے مطابق افغانستان میں نئے سیاسی انتظامات کئے جائیں گے ،جن میں18ماہ کی عبوری مدت کے دوران نئے آئین کی تشکیل شامل ہے، عبوری حکومت چیئر مین اور کئی وائس چیئرمینز پر مشتمل ہو گی۔ مستقبل کی حکومت کے ماڈل میں صدارتی اختیارات میں کمی اور انہیں متوازن بنانے کی تجویز رکھی گئی ہے۔مسودے میں کہا گیا ہے کہ افغان فوج، انٹیلیجنس اور سرحدی پولیس نیشنل کمانڈ کے ماتحت کام کرینگی ،جبکہ پولیس کو مقامی سطح پر چلا یا جائے گا۔ دوسری جانب افغان چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے ترجمان فریدون خوزون نے کہا ہے کہ کسی بھی قسم کا معاہدہ افغان حکومت اور عوام کی مرضی سے ہوگا۔ ادھر امریکی سینیٹ کی آرمڈ سروس کمیٹی کی رکن اور 2020میں ٹرمپ کی متوقع مخالف صدارتی امیدوار سینیٹر ایلزبتھ وارن نے کہا ہے کہ وہ شام اور افغانستان میں فوجی سرگرمیوں کے بجائے امریکی فوج کے انخلا کی حمایت کریں گی۔امریکی نشریاتی ادارے ’ایم ایس این بی سی‘ کو انٹرویو میں ایلزبتھ وارن نے کہا یہ درست فیصلہ ہے کہ ہم شام سے اپنی فوج کو واپس بلالیں اور اس کے ساتھ افغانستان سے بھی فوج کو واپس بلانا صحیح فیصلہ ہے۔فوجی دستوں کے انخلا کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں ہر وہ شخص جو اب بھی یہ کہتا ہے کہ نہیں، نہیں ہم یہ نہیں کرسکتے ا سے اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ ان کے خیال میں ان جنگوں میں کامیابی کی کیا صورت ہوگی اور ابھی کیا صورتحال ہے۔تاہم ایلزبتھ وارن نے اس قسم کے حساس معاملات پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اچانک اعلانات کرنے کے طریقہ کار کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پالیسیاں ٹوئٹر کے ذریعے نہیں تشکیل دی جانی چاہئیں؟ واشنگٹن میں مبصرین کا کہنا تھا کہ افغان جنگ، امریکہ میں اتنی غیر مقبول ہوچکی ہے کہ کوئی امریکی سیاستدان افغانستان میں فوجیں رکھنے کی حمایت نہیں کرے گا اور رواں برس جب صدارتی مہم کا آغاز ہوگا تو افغانستان سے فوج کے انخلا کا مطالبہ اور شدد سے سامنے آئے گا۔ علاوہ ازیں طالبان نے سعودی عرب کی جانب سے افغان حکومت کو امن مذاکرات میں شامل کرنے کی خواہش کو رد کرتے ہوئے امریکہ اور سعودی عرب سے رواں ماہ طے شدہ مذاکرات کے مقام کو تبدیل کرکے انہیں قطر میں منعقد کرنے کا مطالبہ کردیا۔افغانستان میں مقیم سینئر طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ہمیں آئندہ ہفتے ریاض میں امریکی حکام سے ملاقات کرنی تھی اور گزشتہ ماہ ابو ظہبی میں بھی نامکمل رہ جانے والے امن مرحلے کو بھی آگے بڑھانا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکام چاہتے ہیں کہ ہم افغان حکومت کے وفد سے ملاقات کریں، جسے ہم برداشت نہیں کرسکتے اور اس لیے ہم نے سعودی عرب میں اس ملاقات سے منع کردیا ہے۔طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی تصدیق کی کہ انہوں نے سعودی عرب میں ملاقات سے منع کردیا ہے تاہم انہوں نے ملاقات کے نئے مقام کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی۔

Comments (0)
Add Comment