اعظم سواتی کیخلاف تحقیقات پولیس اور ایف بی آر کے سپرد

اسلام آباد(نمائندہ امت)سپریم کورٹ نےتحریک انصاف کے رہنما سینیٹر اعظم سواتی کے اثاثوں کی تحقیقات ایف بی آراور پولیس کے سپر د کردیں اور عندیہ دیا ہے کہ عدالتی حکم پر مستعفی ہونے والے وفاقی وزیر کیخلاف آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جو صادق اور امین ہی نہیں وہ کیسے رکن اسمبلی رہ سکتا ہے، مثال قائم کرنا چاہتے ہیں کہ بڑے آدمی چھوٹوں کو روند نہیں سکتے انہیں سزا ملے گی،ایف بی آر اور پولیس کی رپورٹس آنے کے بعد کیس کی دوبارہ سماعت کریں گے۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے آئی جی اسلام آباد کے تبادلے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔ اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے بتایا کہ ان کے مؤکل وزارت سے استعفی دے چکے ہیں لیکن ان کا استعفی منظور نہیں ہوا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ استعفیٰ وزارت سے دیا گیا، لیکن ابھی تک وزارت پر ان کا نام چل رہا ہے، کیا وہ رکن اسمبلی رہنے کے بھی اہل ہیں؟ اعظم سواتی میرے جانے کے دن گن رہے ہیں، عدالت نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت اہلیت دیکھنا ہے، عدالت 184/3 میں کئی ارکان پارلیمنٹ کو نااہل کر چکی ہے۔ کیا ہمسایوں کو گرفتار کروانے والا دیانتدار اور راست باز ہو سکتا ہے؟چیف جسٹس کی جانب سے اعظم سواتی کے امریکہ میں داخلے پر پابندی سے متعلق استفسار پرپی ٹی آئی رہنما نے بتایا کہ امریکی شہریت چھوڑ چکا ہوں، امریکہ جانے پر کوئی پابندی نہیں، ویزے کے لئے اپلائی کیا ہوا ہے، امریکہ میں وسیع کاروبار ہے جو ظاہر کر چکا ہوں۔ اعظم سواتی کے وکیل نے کہا کہ امریکہ سے سب سے زیادہ زرمبادلہ اعظم سواتی لائے ہیں ،وہ خود پر لگے دھبے صاف کروانا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد عامر ذوالفقار سے مکالمہ کرتے ہوئے استفسار کیا،آئی جی صاحب، آپ نے اب تک کیا کیا ہے؟آئی جی اسلام آباد نے عدالت کو بتایا کہ ‘اعظم سواتی کے بیٹے عثمان سواتی، نجیب اللہ، جان محمد، فیض محمود اور جہانزیب کے خلاف پرچہ درج کیا،ملزمان کی ضمانت منسوخی کیلئے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سارا کیا دھرا اعظم سواتی کا ہے، جنہوں نے آئی جی کو ٹیلی فون کئے تھے، جے آئی ٹی رپورٹ بھی ان کے خلاف ہے، آپ کو کس نے آئی جی بنایا ہے، آپ اعظم سواتی کو بچانے کے لئے بیٹھے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بڑا آدمی ہے؟ اگر لوگوں کو انصاف نہیں دینا تو کس چیز کے آئی جی لگے ہو۔ہمیں پولیس سے شرم آرہی ہے۔آئی جی اسلام آباد کے حوالے سے عدالت کا تاثر اچھا نہیں، بات نہ سننے والا ٹرانسفر ہو جائے گا اور بات ماننے والا تعینات ہوجائے گا۔ عدالتی معاون فیصل صدیقی نے سپریم کورٹ کو بتایا جے آئی ٹی کے مطابق اعظم سواتی کے اثاثے آمدن سے زیادہ ہیں، انہوں نے 101 کنال اراضی بھی ظاہر نہیں کی،اثاثوں میں اضافے کا بھی ٹھوس جواب نہیں دیا گیا، اختیارات کے ناجائز استعمال پر فوجداری کارروائی ہو سکتی ہے اور نیب قانون بھی لاگو ہوتا ہے۔ جے آئی ٹی کے مطابق آئی جی کا تبادلہ اعظم سواتی نے نہیں کروایا لیکن واقعاتی شہادت سے لگتا ہے آئی جی کا تبادلہ اعظم سواتی کی شکایت پر ہوا۔ جسٹس ثاقب نثار نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی آگیا کہ وزیر کے ساتھ پولیس نے خصوصی برتاؤ کیا۔جے آئی ٹی نے کچھ معاملات میں نیب کو مداخلت کی سفارش کی ہے۔ساتھ ہی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن کے علاوہ کوئی ایسا فورم ہے ، جہاں اس معاملے کو بھیجا جائے؟اعظم سواتی کے وکیل علی ظفر نے عدالت کے روبرو کہا کہ ان کے موکل کے خلاف فوجداری مقدمہ ہے، عدالت پولیس کو ٹرائل کے لیے ہدایات دے سکتی ہے۔تاہم چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو ردی کی ٹوکری میں پھینکا نہیں جا سکتا۔عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ اگر مِس ڈیکلریشن کا کیس ہو تو 62 ون ایف کے تحت نا اہل کرنےکی کارروائی ہوسکتی ہے۔جس پر عدالت عظمیٰ نے عدالتی معاون کی تجویز پر اعظم سواتی کے اثاثوں سے متعلق معاملہ ایف بی آر کو بھجواتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ ایف بی آر جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات کرے گا۔چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مِس ڈیکلریشن ثابت ہوا تو سپریم کورٹ اس کو بھی دیکھے گی کہ اعظم سواتی اہل ہیں یا نہیں۔

Comments (0)
Add Comment