نیب قوانین ترمیم کیلئے مزاکرات ڈیدلاک کا شکار

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی) نیب کے پر کاٹنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات جاری ہیں اور یہ مذاکرات وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کے تیار کردہ بل پر ہو رہے ہیں، جس میں نیب کے بعض اختیارات محدود کرنے اور بعض ختم کرنے کے لیے کچھ بے ضرر تجاویز دی گئی ہیں، تاہم ذرائع کے بقول اپوزیشن ان تجاویز کو ناکافی اور غیر موٴثر سمجھتی ہے، اس لیے بات چیت ابھی تک اتفاق رائے کے مرحلے میں داخل نہیں ہوئی۔ ذریعے کے مطابق اپوزیشن کے بنیادی مطالبات میں جو اہم نکات شامل ہیں، ان میں نیب سے گرفتاری کا اختیار واپس لے کر عدالتوں کو دیا جانا ضروری ہے، جیسا کہ دیگر عام مقدمات میں ہوتا ہے، اسی طرح ریمانڈ کی مدت 90دن سے گھٹا کر 14یا 21دن کرنا ضروری ہے۔ اپوزیشن کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ گرفتار ملزم کو ضمانت پر رہائی دینے کا اختیار بھی ماتحت عدالت کو ہونا چاہئے۔ دارالحکومت کے اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کا سب سے اہم مطالبہ یہ ہے کہ نیب قانون میں بار ثبوت ملزم کے سر پر ڈالا گیا ہے، جو دراصل ڈریکونین قانون ہے، کیونکہ یہ قانون صرف سیاست دانوں، ارکان اسمبلی اور بیوروکریسی کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، جبکہ عام ملکی قوانین میں بار ثبوت استغاثہ کے سر پر ہوتا ہے۔ مذاکرات کی پیش رفت سے واقف ایک ذریعے کے مطابق اصل اڑچن آخری مطالبے نے ڈالی ہے، ورنہ دیگر مطالبات پر تو حکومت کم یا زیادہ لچک دکھانے کو تیار ہو سکتی ہے۔ ذریعے کے بقول گرفتاری کا اختیار عدالتوں کو دینے سے نیب کی کارروائی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ نیب کے پاس اپنی عدالتیں ہیں اور وہ کسی بھی وقت وارنٹ گرفتاری حاصل کر سکتی ہے۔ اسی طرح 90دن کے بجائے 14دن یا اس سے کچھ زیادہ وقت کے ریمانڈ پر محدود ہونے سے بھی نیب کو کچھ زیادہ فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ نیب گرفتار ہی تب کرتی ہے، جب اپنی تفتیش مکمل کر کے سارے یا اکثر شواہد جمع کر لیتی ہے۔ گویا ملک کی دیگر تفتیشی ایجنسیوں کے برعکس اس کا ہوم ورک گرفتاری سے قبل کافی حد تک مکمل ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ پولیس سمیت دوسرے ادارے قانونی طور پر 21دن کے ریمانڈ تک محدود ہیں، جبکہ اس عرصے میں انہیں اپنی تفتیش بھی مکمل کرنی ہوتی ہے، جبکہ نیب تو گرفتار ہی تب کرتی ہے، جب اس کی تفتیش خاطرخواہ حد تک آگے بڑھ جائے۔ گرفتاری کی صورت میں وہ اپنے ترتیب دیئے گئے شواہد کو منظم کرتی ہیں، ان کی خامیاں اور کمزوریاں دور کرتی ہیں، واقعات اور جرائم کا تسلسل جوڑتی ہے اور سب سے بڑھ کر اپنے شواہد کی تصدیق کراتی ہے۔ سو اس کے لیے ریمانڈ کی مدت میں کمی بھی شاید اتنا بڑا مسئلہ نہ ہو، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ بار ثبوت ملزم سے ہٹ گیا تو نیب کو اپنے الزام ثابت کرنے میں دانتوں تلے پسینہ آجائے گا۔ ذریعے کے بقول کوئی چور رسید نہیں دیتا۔ آج کی دنیا میں کرپشن ماضی کے طریقوں سے کوسوں آگے ہے، یہ الیکٹرونک کرپشن ہے، جس کی تہیں پیاز کے چھلکوں کی طرح تہہ در تہہ ہوتی ہیں اور آخر میں کچھ نہیں ملتا۔ مثلاً پکڑے جانے والے سیکڑوں، ہزاروں بے نامی اکاوٴنٹس میں سے بہت کم ایسے ہیں، شاید ایک درجن ہوں گے، جن کی ٹرانزیکشن کسی سراغ کا نشان دیتی ہے، ورنہ زیادہ تر کی دم دھول میں گم ہے۔ ذریعے کے بقول اس طرح کے جرائم کے لیے شعبے کے ماہر ترین لوگوں کی خدمات لی جاتی ہیں، جن کا جال توڑنا اور پکڑنا کسی پاکستانی تحقیقاتی ایجنسی کے لیے تو ممکن نہیں۔ ذریعے نے انکشاف کیا کہ بے نامی اکاوٴنٹس کا یہ جال پکڑنے کے لیے ایف آئی اے نے بھی ایک غیرملکی ماہر کی خدمات حاصل کی تھیں، جس نے کئی ہفتوں کی محنت کے بعد یہ شواہد حاصل کئے، یہ شواہد بے نامی اکاوٴنٹس کیس میں استغاثے کے مقدمے کی بنیاد بنے۔ ذریعے کے بقول فالودے والے اور آلو چھولے والے کے اکاوٴنٹس سے رقوم آگے بڑھانے کا سراغ بھی غیر ملکی سائبر کرائم ماہر نے لگایا تھا، جسے خصوصی طور پر پاکستان بلایا گیا تھا۔ ذریعے نے بتایا کہ مذکورہ ماہر نے اگرچہ ایف آئی اے کے سائبر شعبے کو تربیت بھی دی ہے، تاہم دیگر جرائم میں سراغ حاصل کرنا مشکل تر ہو سکتا ہے، اس لیے ذریعے کے بقول بار ثبوت ملزم سے ہٹا کر استغاثہ پر ڈال دیا گیا اور گرفتاری کا فیصلہ بھی عدالتوں کے ہاتھ میں چلا گیا تو نیب پولیس جیسا روایتی ادارہ بن جائے گا، تب اس کی ضرورت بھی نہیں رہے گی، تاہم نیب قوانین میں تبدیلی پر مصر سیاسی جماعتوں میں سے ایک یعنی نواز لیگ کے ایک رہنما کے بقول سیاستداں بھی اسی ملک کے شہری ہیں، ان پر بھی وہی قوانین نافذ ہونے چاہئیں، جو عام شہری پر ہوتے ہیں۔ ان کے لیے الگ سے کوئی قانون بنانا آئین کے ان آرٹیکلز کی خلاف ورزی ہے، جس میں سارے شہریوں کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں، مذکورہ رہنما نیب قوانین میں ترمیم کے لیے ہونے والے رابطوں سے باخبر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نیب کی خودسری سے دراصل تحریک انصاف بھی اندر سے ڈری ہوئی ہے، رہنما کے بقول ان سے تحریک انصاف کے کئی رہنماوٴں نے آف دی ریکارڈ کہا ہے کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نیب کا پرنالہ اگلی بار کہاں گرے گا، لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ کھل کر یہ بات نہیں کر سکتے، کیونکہ اس سے کرپشن کے خلاف حکومت اور دیگر اداروں کی موجودہ مہم کو نقصان پہنچ سکتا ہے، تاہم مذکورہ رہنماوٴں کے بقول پارٹی کے اندر اس معاملے پر دباوٴ بڑھ رہا ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ دباوٴ بڑھانے والے سارے کرپٹ ہیں، بلکہ یہ کہ نیب کی سرگرمیوں کے باعث سرکاری افسران نے تقریباً کام چھوڑ دیا ہے، جس سے ناصرف ترقیاتی منصوبے متاثر ہو رہے ہیں، بلکہ عوام کو بھی شکایات پیدا ہو رہی ہیں۔ مذکورہ رہنماوٴں میں سے خصوصاً جو رہنما کاروباری حلقوں سے تعلق رکھتے ہیں، وہ اس ضمن میں سب سے زیادہ پریشان ہیں، کیونکہ رہنما کے بقول نیب اور ایف آئی اے کے چھاپوں سے کاروباری سرگرمیاں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں، جس کا الزام حکومت کے سر آرہا ہے اور اگر اس پر توجہ نہ دی گئی تو حکومت کچھ بھی ڈیلیور نہیں کر پائے گی اور اگلے الیکشن میں عوام کے سامنے جانے کے لیے اس کے ہاتھ میں کچھ نہ ہو گا۔

Comments (0)
Add Comment