پشاور(نمائندہ خصوصی)افغانستان کے شمالی صوبہ بغلان کے گورنر نے مرکزی حکومت سے درخواست کی ہے کہ بغلان کو طالبان کے محاصرے سے آزاد کرانے کیلئے مزید فوج تعینات کی جائے ۔افغان طالبان نے بغلان کا محاصرہ شروع کر دیا ہے اور دارالحکومت پل خمری کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں ۔گزشتہ دو روز کی لڑائی میں بائیس سیکورٹی اہلکار اور آٹھ طالبان جنگجو مارے گئے ہیں ۔افغانستان کے شمالی صوبہ بغلان کے گورنر عبد الحئی نے مرکزی حکومت سے درخواست کی ہے کہ طالبان کا محاصرہ توڑنے کے لئے مزید فضائی اور زمینی فوج بجھوائی جائے کیونکہ طالبان پل خمری سے دو کلو میٹر دوری پر ہیں اور گزشتہ دو راتوں سے طالبان مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں ۔آزاد ذرائع کے مطابق پل خمری کے قریب طالبان نے حملوں میں بائیس سیکورٹی اہلکاروں کو مارا ہے جبکہ لڑائی میں آٹھ افغان طالبان بھی مار ے گئے ہیں جبکہ طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب افغان طالبان نے پل خمری کے قریب ایک فوجی اڈے پر قبضہ کر کے 35فوجیوں کو ہلاک کردیا ہے تاہم آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق نہیں ہو سکی دوسری جانب ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہاہے کہ ہمارے طالبان کے ساتھ انٹیلی جنس رابطے موجود ہیں کیوں کہ ہمارے کچھ سرحدی علاقے ان افغان علاقوں سے ملتے ہیں جو طالبان کے کنٹرول میں ہیں،طالبان کے زیر کنٹرول افغان ایران سرحدی علاقے میں سلامتی کی ضرورت ہے۔غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق بھارت کے دورے کے دوران دیئے گئے انٹرویو میں ایران کے وزیر خارجہ نے کہا کہ مستقبل کے افغانستان میں طالبان کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا البتہ اس حوالے سے فیصلہ افغان عوام کو کرنا ہے۔ ہمسایہ ملکوں میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ طالبان کو بالادستی حاصل ہو کیونکہ یہ خطے کے مفاد میں نہیں ہے، ہمارا بھی یہی خیال ہے کہ طالبان کا یہ کردار انتہائی اہم نہیں ہونا چاہیے۔ادھر افغانستان نے ایرانی وزیر خارجہ کے بیان پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ افغان وزارت خارجہ نے جواد ظریف کے بیان کو افغانستان کے اندرونی امور میں ایران کی واضح مداخلت قرار دیا ہے۔ افغانستان کے نائب وزیر خارجہ ادریس زمان نے ٹویٹ میں کہا کہ 2 ریاستوں کے درمیان تعلقات سے ہٹ کر طالبان کے ساتھ کسی بھی قسم کے رابطے دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں کو کمزور کریں گے۔