گیس بحران اور ایف بی آر پر تاجر پھٹ پڑے

کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک / ایجنسیاں) کراچی کے تاجر گیس بحران اور ٹیکس معاملات پر پھٹ پڑے۔ ایوان صنعت و تجارت میں وفاقی وزیر خزانہ سے ملاقات کے دوران بزنس مین گروپ کے سربراہ سراج قاسم تیلی، زبیر موتی والا ودیگر نے ایف بی آر کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی ادارے کو بند کرنے کا مطالبہ کر دیا اور الزام لگایا کہ افسران نے طاقت رشوت لینے کیلئے استعمال کی، ایف بی آر کو تالہ لگا دیا جائے تو محصولات وصولی 15 فیصد بڑھ جائے گی۔ دوسری جانب اسد عمر نے ٹیکس بے ضابطگیوں کو ختم، سرمایہ کاری بڑھانے اور کاروبار کے فروغ کیلئے اقدامات کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایف بی آر کے ایس آر او کے اجرا کا اختیار ختم کر دیا ہے۔ ٹیکسوں کے حوالے سے ہر قسم کی تبدیلی پارلیمنٹ کی منظوری سے ہوگی۔ انہوں نے منی بجٹ کا بم 23 جنوری کو گرانے کا اعلان کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ملک میں سرمایہ کاری میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ درآمدات زیادہ، جبکہ برآمدات پہلے ہی کم ہیں، لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی کارکردگی گزشتہ حکومتوں کے ابتدائی 5 ماہ کی کارکردگی سے کہیں بہتر ہے۔ وزیرخزانہ کے اعلان پر معاشی ماہرین نے مہنگائی کے نئے طوفان کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب تک کے حکومتی اقدامات نے عام آدمی پر بوجھ ڈالا ہے، ٹیکسوں میں ردوبدل کے نام پر بھی اشیا کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی، جس سے شہریوں کی زندگی اجیرن ہو جائے گی۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ روز ایوان صنعت و تجارت کراچی کا دورہ کیا، جہاں ان سے تاجر برادری نے ملاقات کی۔ اس موقع پر تاجر برادری نے ٹیکس معاملات اور گیس بحران سمیت مختلف معاملات پر وزیر خزانہ کے سامنے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ صرف ٹیکس دینے والے کو ہی دباتے رہے تو ریونیو نہیں بڑھے گا، اس لئے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے توجہ دی جائے۔ بزنس مین گروپ کے سربراہ سراج قاسم تیلی نے ایف بی آر کی کارکردگی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ حکومت نے نچلے درجے کے افسروں تک طاقت منتقل کی، جو صرف رشوت لینے کیلئے استعمال کی گئی۔ موجودہ حالات میں پرانے ٹیکس دہندگان سے تو کچھ نکال لیں گے، ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایف بی آر کو تالہ لگا دیں، شرطیہ 15 فیصد ریونیو بڑھ جائے گا۔ بزنس مین گروپ کے سینئر نائب چیئرمین زبیر موتی والا نے اسد عمر کے سامنے کراچی کا بھی مقدمہ پیش کیا اور کہا کہ گیس بحران سے صنعت کار کو شدید نقصان ہو رہا ہے، 15، 20 سال سے سندھ اور بلوچستان کا گیس کوٹہ 1200 ایم ایم سی ایف ڈی رکھا ہوا ہے، امتیازی سلوک کو ختم کرنا ہوگا، گزشتہ مالی سال گیس بحران پر کراچی کی صنعتیں 16 روز بند رہیں، جس کی وجہ سے نصف ماہ صنعتوں میں پیداوار نہیں ہوسکی، حالانکہ دسمبر وہ مہینہ ہوتا ہے، جب شپمنٹس جاتی ہیں۔ اس حوالے سے سراج قاسم تیلی کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت آئین کے آرٹیکل 158 پر عملدرآمد کو یقینی بنائے اور سندھ سے نکلنے والی گیس سے پہلے سندھ کی ضروریات کو پورا کیا جائے۔ صنعتوں کو اتوار کو بھی گیس سپلائی بند نہیں ہونی چاہیے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ تاجر برادری اپنی ٹیم اسلام آباد بھیجے، وہاں مسائل پر مزید بات کریں گے، ٹیکسز پر کوئی تبدیلی چاہتے ہیں تو یہ فیصلے فوری نہیں ہونے چاہئیں، ٹیکسز کو پارلیمنٹ میں بحث کے بعد تبدیل ہونا چاہیے، بغیر کسی چیک بیلنس کے کوئی اختیار ہو تو وہ اختیار نقصان دہ ہوگا۔ ہمیں علم ہے کہ ماضی میں قلم کی ایک جنبش سے ہر روز کیا کیا کام کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ میں کراچی چیمبر کا رکن رہ چکا ہوں، یہ میرا گھر ہے، ہمارے منشور میں یہ لکھا تھا کہ کاروبار کی آسانی کے لیے مواقع پیدا کریں گے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اکیسویں صدی میں معیشت کا پہیہ نجی شعبہ چلاتا ہے۔ کراچی پاکستانی معیشت کا دل ہے، نئے مالیاتی بل میں کاروباری طبقے کے لیے آسانیاں نظر آئیں گی، سرمایہ کاری ہوگی تو معیشت آگے بڑھے گی، سرمایہ کاری بڑھے گی تو نوکریاں پیدا ہوں گی۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیا میں علاقائی تجارت نہ ہونے کے برابر ہے اور بھارت و افغانستان سے تعلقات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے خطے میں تجارت بڑھ نہ سکی۔ وفاقی وزیر خزانہ نے کہا کہ ان کی حکومت بھارت کے ساتھ بہتر تجارتی تعلقات چاہتی ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے منشور میں معاشی تعلقات کے قیام کو خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول رکھا ہے۔ اسد عمر نے بتایا کہ وفاقی حکومت فی الحال انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پاس نہیں جا رہی، بلکہ ہم دیگر راستوں پر غور کر رہے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب اور ترکی میں سرمایہ کاری پر بھی بات ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو کاروبار دوست ملک کی رینکنگ میں 147 سے 136 تک آگئے ہیں اور اسے 100 سے کم میں لے کر جانا چاہتے ہیں۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم نے گزشتہ 30 برسوں میں اپنی معیشت کو اسراف پر مبنی بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے ہماری بچت دنیا کی سب سے کم ہوگئی اور پاکستان میں سرمایہ کاری بھی دنیا سے بہت پیچھے رہ گئی ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی بڑھ کر خطرناک صورتحال اختیار کر گیا ہے اور اس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں پی ٹی آئی وہ پہلی سیاسی جماعت تھی، جس کے منشور میں کاروبار میں آسانی پیدا کرنے کی بات شامل ہے، جبکہ کاروبار آسان کرنے (Ease of doing business) کے حوالے سے ہر مہینے اجلاس بلایا جاتا ہے، جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان کرتے ہیں۔ اسد عمر کے مطابق پاکستان میں مقامی بچت اور سرمایہ کاری کم ترین سطح تک آگئی ہے، یہی وجہ ہے کہ منی بجٹ میں کھپت کو کم کرنے اور سرمایہ کاری بڑھانے کے اقدامات ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ ہماری جو درآمدی کھپت ہے، اس کو پالیسیز کے ذریعے کنٹرول کریں گے، جو 23 تاریخ کے فنانس بل میں بھی آپ کو نظر آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ کمزور ترین طبقے کی مشکلات کم کرے اور ہم نے اپنے فیصلوں میں یہی کرنے کی کوشش کی ہے، جس کی جھلک بجلی کی قیمت، گیس کی قیمت یا ٹیکس کے نظام پر کیے گئے فیصلوں میں آپ کو نظر آرہی ہے‘‘۔ معیشت کو بڑھانے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ خطے میں تجارت معیشت کی افزائش کے لیے سب سے اہم ہے، تاہم جنوبی ایشیا میں اس کام میں مسائل کی بھرمار ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ایک طرف بھارت ہے، جس سے ہمارے مسائل رہے ہیں، دوسری جانب افغانستان ہے، جس کے اپنے مسائل ہیں اور ایک طرف ایران ہے، جس کو امریکہ سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اتنے مسائل کے باوجود ہم نے اس کو باقاعدہ ترجیح بنا کر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم بھارت سے تجارت بڑھانے اور کشمیر کے مسئلے سمیت تمام امور پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں اور اس کام کی آرمی چیف بھی حمایت کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس کام سے پاکستان اور بھارت دونوں کو فائدہ حاصل ہوگا۔ ترکی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ترکی میں عوامی سطح پر پاکستان کیلئے خیرسگالی کا جذبہ ہے، لیکن دونوں ملکوں میں تجارت اتنی نہیں اب ترکی سے تجارتی وفود کے تبادلے پر بات چیت ہوئی ہے۔ گردشی قرضوں کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پر تقریباً 2 سے 3 ہزار ارب روپے پرانے پاکستان کا قرضہ ہے اور اتنی بڑی رقم فوراً تو نہیں آسکتی، تاہم اس کو حل کرنے کے لیے بھی ہمیں کاروباری حضرات کی جانب سے ہی چند تجاویز ملی ہیں، جس پر ہم کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے چیمبر اراکین کو باور کرایا کہ نئے فنانس بل کا مقصد آمدنی بڑھانا نہیں، بلکہ صرف کاروبار کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گیس کا مسئلہ منصوبہ بندی کی کمی سے پیدا ہوا، منصوبہ بندی کی کمی اور فوری ایکشن نہ لینے پر ہی کارروائی کی گئی۔ وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ پرانے پاکستان کے قرضے آسمان سے باہر نکل رہے ہیں۔ روزانہ مختلف اداروں کے وفود آتے ہیں کہ ہمارے اتنے پیسے پھنسے ہوئے ہیں، آئندہ مالیاتی بل میں اسٹاک ایکسچینج کے لیے اچھی خبر ہوگی، تاجر ایسی تجاویز لے کر آئیں، جس سے حکومت کا کاروبار بھی چلتا رہے اور مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ دوسری جانب معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹیکسوں میں ردوبدل کے نام پر اشیا کی قیمتیں بڑھائی جائیں گی، جس سے مہنگائی کا ایک اور طوفان آئے گا۔ ماہرین کے مطابق حکومت نے کاروبار کے فروغ کے نام پر سرمایہ کاروں کو چھوٹ دینے کا اشارہ دیا ہے، جس سے ملک میں معاشی تفریق بڑھے گی، کیونکہ سرمایہ کاروں کو چھوٹ سے سرمایہ کا ارتکاز ہوگا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے اب تک جو اقدامات کئے ہیں، انہوں نے عام آدمی پر بوجھ ڈالا ہے اور لگتا یہی ہے کہ منی بجٹ میں بھی عوام کو کڑوی گولی نگلنا ہوگی۔ دریں اثنا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سراج قاسم تیلی نے کہا کہ اسد عمر نے انہیں یقین دلایا ہے کہ منی بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا یا اگر لگایا بھی گیا تو انتہائی کم ہو گا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment