جامعہ کراچی کی طالبہ نے ماحول دوست پلاسٹک تیار کرلیا

کراچی (رپورٹ : راؤ افنان) حکومتی سطح پر تاحال پیٹرو کیمیکل پلاسٹک کے استعمال پر پابندی نہ عائد کی جا سکی، جامعہ کراچی کی طالبہ نے آم کی گٹھلی کے نشاستے سے ماحول دوست بائیو پلاسٹک تیار کرلیا،جسے پکانے اورکھانے سمیت دیگر استعمال میں لایا بھی جا سکتا ہے،بائیو پلاسٹک سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ممکن ہے۔ تفصیلات کے مطابق وفاق اور صوبائی حکومت پیٹرو کیمیکل پلاسٹک کے استعمال پر پابندی لگانے میں مکمل طور پر ناکام ہے ،سندھ انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کا قیام تو عمل میں لایا گیا ،تاہم ادارہ تاحال صرف خانہ پری کر رہا ہے اور گاڑیوں کی جانچ پڑتال کر کے کاغذی کارروائی کی جا رہی ہے ،سندھ تحفظ ماحولیات ایجنسی کےعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال کے پہلے4 مہینوں میں1402 گاڑیوں کی جانچ کی گئی،تاہم اس کے بعد سے گاڑیوں کی جانچ سے متعلق فہرست جاری نہ ہوسکی۔ دوسری جانب جامعہ کراچی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے تحقیق مکمل کرلی ہے،جس کے مطابق پلاسٹک اب کھایا بھی جا سکتا ہے اور کھانے کے علاوہ پانی میں حل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی طالبہ ڈاکٹر انجم نواب نے پروفیسر ڈاکٹر عابد حسنین کی نگرانی میں اپنی پی ایچ ڈی کی تحقیق میں آم کی گٹھلی کے نشاستےسے پلاسٹک کا کامیاب تجربہ کیا ہے،جسے بنانے کی تیاری بھی کی جارہی ہے۔شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کےسابق چیئرمین اور ڈائریکٹر ایوننگ پروگرام ڈاکٹر عابد حسنین کے مطابق دنیابھر میں کھانے پینے کی اشیاکی پیکنگ میں 40فیصد پلاسٹک استعمال ہورہاہےجو مہلک بیماریوں سمیت ماحولیاتی آلودگی کا باعث بن رہا ہے۔ ترقی یافہ ممالک میں پلاسٹک پیکنگ پر پابندی ہے ،جبکہ ترقی پذیر ممالک میں ابھی تک اس پر مکمل پابندی نہ لگ سکی۔ایک سوال پرڈاکٹر عابد حسنین کا کہنا تھا کہ ملک میں وسائل کم ہونے کی وجہ سے تحقیق کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آم کی گٹھلی، جوار اور بھٹے کے نشاستے سے پلاسٹک بنایا جاسکتا ہے ،جو قابلِ استعمال کے بعد اِس کو پکایا اور کھایا بھی جاسکتا ہے ،جبکہ استعمال شدہ پانی میں حل کر کے ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر عابد حسنین نے بتایا کہ ہم اِسے آزمائشی طور پر جامعہ میں ہی بنانے جارہے ہیں ۔ دنیا بھر میں ترقی یافتہ ممالک میں ڈی کمپوز ہونے والی پلاسٹک کا استعمال بڑھ رہا ہے، مگر ہمارے یہاں روایتی پلاسٹک استعمال ہونے سےماحولیاتی آلودگی کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی اس کا ایک ہی حل ہے کہ کھانے پینے کی اشیامیں ڈی کمپوز پلاسٹک کا استعمال کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت وسائل مہیا کرے تو اِسے تجارتی بنیاد پر مارکیٹ میں لایا جاسکتا ہے۔جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف انوائرمنٹل اسٹڈیز کےاسسٹنٹ پروفیسر کا کہنا تھا کہ مغربی ممالک بائیو پلاسٹک کی طرف جارہے ہیں اور بائیو پلاسٹک کی خاصیت ہی یہی ہے کہ وہ زائل ہونے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے ،جبکہ ہمارے ملک میں پیٹرو کیمیکل پلاسٹک کا بے تحاشہ استعمال ہے،اگر اس پر پابندی لگاکرتجارتی مراکز سمیت ہر جگہ بائیو پلاسٹک کا استعمال یقینی بنایا جائے تو اس سے آلودگی میں کمی اور شہر کو کچرے کے ڈھیروں سے چھٹکارا دلا یاجا سکتا ہے۔

Comments (0)
Add Comment