اسلام آباد(نمائندہ امت) نامزدچیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ ازخود نوٹس لینے کے اختیار اور عدالتی فیصلے کے خلاف نظرثانی کے لیےکچھ کرنے کاارادہ رکھتے ہیں اور اس میں تبدیلی کے اشارے دیے جارہے ہیں ۔پاکستان بار کونسل کی جانب سے اس بارے چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے ازخود نوٹس کامعاملہ حل نہیں کیا اور یہ تاحال زیر التواء ہے۔ پاکستان بار کونسل کوچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے ڈیم بنانے ،ہسپتالوں اور دیگر سرکار ی اداروں پر چھاپے مارنے کومناسب نہیں سمجھا۔کونسل کاکہناہے کہ اگر سپریم کورٹ ہی کے معاملات پر زیادہ نظررکھی جاتی توچیف جسٹس میاں ثاقب نثار کومزیدکامیابیاں مل سکتی تھیں ۔جسٹس منصور علی شاہ کااختلافی نوٹ چیف جسٹس سے علمی اختلاف کی وجہ سے ہے اس کوذاتی طورپر کوئی اہمیت حاصل نہیں ۔ذرائع نے ’’امت ‘‘کوبتایاہے کہ سپریم کورٹ میں زیر التواء اہم ترین مقدمات جن میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے خلاف دیے گئے فیصلے ،جعلی اکائونٹس کیس سمیت دیگرمقدمات شامل ہیں ۔جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ چیف جسٹس کے ازخود نوٹس کے اختیارکے بارے میں بھی کچھ کرنے کاارادہ رکھتے ہیں اس کے لیے وہ کام بھی کررہے ہیں ۔پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے’’ امت ‘‘سے گفتگومیں بتایاہے کہ جب چیف جسٹس پاکستان کوئی بنچ تشکیل دے دیتے ہیں تواس وقت تک کسی بھی جج کواس بنچ سے الگ نہیں کیاجاسکتا جب تک وہ خود ہی اپنے آپ کواس سے الگ نہ کرلے ۔اس لیے جسٹس منصورعلی شاہ نے جوفیصلہ لکھاہے وہ درست ہے ۔تاہم اس طرح کے فیصلے علمی ہوتے ہیں اور ان کودیکھابھی علمی اندازسے چاہیے ۔انھو ں نے کہاکہ ۔جسٹس منصور علی شاہ کااختلافی نوٹ چیف جسٹس سے علمی اختلاف کی وجہ سے ہے اس کوذاتی طورپر کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے ۔ججزکووکلاء کوبھی ایک معاملے میں اختلاف رائے ہوتاہے اور یہ اختلاف بھی ایک حسن ہے جس سے لوگوں کومختلف رائے ملتی ہیں ۔انھوں نے مزیدکہاکہ پاکستان بار کونسل سے وعدہ کیاگیاتھاکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ازخود نوٹس کے حوالے سے اپیل کاحق دینے کے لیے اقدامات کریں گے مگرایسانہیں کیاگیاہے یہ معاملہ ابھی بھی زیر التواء ہے پتہ چلاہے کہ نامزدچیف جسٹس آصف سعیدخان کھوسہ اس بارے کام کررہے ہیں امیدہے کہ وہ اس مسئلے کوحل کریں گے انھوں نے کہاکہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اچھے کام بھی کیے ہیں تاہم انھوں نے ڈیم کے معاملے پر سپریم کورٹ کوملوث نہیں کرناچاہیے تھاکیونکہ اس طرح کے کام عدالت کے دائرہ کار میں نہیں آتے ہیں ۔سرکاری اداروں پر چھاپے مارناچیف جسٹس پاکستان کاکام نہیں ہے تاہم وہ یہ کام کرتے رہے ہیں ۔انھوں نے مزیدکہاکہ سترہ جنوری کوچیف جسٹس کے اعزازمیں ہونے والے فل کورٹ ریفرنس میں بھی خطاب کے دوران نامزدچیف جسٹس کی توجہ اہم امور کی جانب مبذول کرانے کی کوشش کروں گا۔