کراچی(اسٹاف رپورٹر)ٹارگٹ کلنگ قتل و غارت گری بھتہ خوری دھماکہ خیز مواد اور غیر قانونی اسلحہ سمیت دہشت گردی ایکٹ کے تحت قائم درج 12 سے زائد مقدمات میں گرفتار30 متحدہ کے ٹارگٹ کلرز کے خلاف سرکاری اور پرائیویٹ گواہوں نے عدالتوں میں بیان ہی ریکارڈ نہیں کرایا ہے اور گواہ عرصہ دراز سے غائب ہیں ،جس کے باعث نائن زیرو آپریشن، سانحہ 12 مئی بھارتی خفیہ ایجنسی سے ٹریننگ اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے قتل کے مقدمات بروقت نمٹائے نہیں جاسکے ہیں ۔مقدمات کے التوا سے ٹارگٹ کلرز کو فائدہ ملنے کا امکان ہے۔انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں میں متحدہ کے ٹارگٹ کلرز کامران مادھوری،رئیس مما،منہاج قاضی ،نعیم ،ملا،شہزاد ملا،عبید کے ٹو،فرحان شبیر عرف ملا،سعید بھرم،فہیم مرچی،ناصر کھجی، عبد الوقار ،محمد علی ،اکبر علی ،ارسلان علی، طاہر ملوک ،قاسم عرف بابو بنگالی ،قیوم عرف کالا ،خلیل الرحمن عرف لمبا ،مصباح الرحمن ،فرخ خان اسمعیل رضوی ،ندیم خان ،عمران عرف کپ والا ،عمران عرف جوس والا، علاؤ الدین عرف کانا،تیمور بٹ سمیت 30 سے زائد ملزمان کے درج ہونے والے 12 سے زائد مقدمات کے40 سرکاری اور پرائیوٹ گواہ عرصہ دراز سے غائب ہو گئے ہیں ،جس کے باعث دہشت گردوں کے خلاف گواہوں نے بیانات ریکارڈ ہی نہیں کرائے ہیں نہ ہی گواہ پولیس سے رابط کرتے ہیں ۔ٹارگٹ کلرز کے خلاف درج مقدمات کو بروقت نمٹانے میں تاخیر ہو رہی ہے ۔گواہوں کے عدم دستیابی سے ملزمان کو فائدہ ملنے کا امکان پیدا ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ نائن زیرو آپریشن مقدمات،نائن زیرو پر دہشت گردوں کو پناہ دینے،بھارتی خفیہ ایجنسی سے ٹریننگ لے کر پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے،بزٹہ لائن میں پیپلز پارٹی کے دفتر پر حملہ کرنے،حقیقی کے کارکنوں کو قتل کرنے،سندھ سیکریٹریٹ گارڈن ہیڈ کوراٹر پر حملہ کرنے سمیت دیگر مقدمات عرصہ دراز سے نمٹائے نہیں جاسکے ہیں،جبکہ سانحہ 12 مئی کے مقدمات میں نامزد میئر کراچی سمیت دیگر ملزمان کے مقدمات میں سرکاری گواہ ہی غائب ہیں، خصوصی عدالتوں کے نوٹس کے باوجود پولیس گواہوں کو عدالتوں میں پیش کرنے سے قاصر ہے ۔گواہوں کی عدم دستیابی کی بڑی وجہ سامنے آئی ہے کہ پولیس اہلکاروں کے تبادلے ہو چکے ہیں اور بہت سارے پولیس افسران ریٹائرڈ ہونے کے بعد دوسری جگہوں پر رہ رہے ہیں اور پولیس نے پرائیویٹ گواہوں کے گھروں کے پتہ کا اندراج ہی ٹھیک نہیں کیا تھا ۔موجودہ پتوں پر موجودہ تفتیش کاروں کو گواہ ہی نہیں مل رہے ہیں کچھ گواہ کاموں میں مصروف ہونے کے باعث وقت پر عدالتوں میں پیش نہیں ہوتے ہیں اس حوالے پراسیکیوٹر جنرل سندھ ایاز تنیو نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ پولیس کی تفتیش ٹھیک کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جو پولیس اہلکار گواہ ہیں ان کی تنخواہیں روکی جائیں گئیں جو ریٹائرڈ ہو چکے ہیں ان کی پنشن روکنے کی درخواست کی جائے گی تاکہ وہ لوگ عدالتوں میں گواہی ریکارڈ کرائیں ان کا کہنا تھا کہ پرائیویٹ گواہ پیش نہیں ہوتے ہیں تو عدالتیں گواہوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتی ہیں پراسیکیویشن کی کوشش ہے کہ جتنے بھی پرانے مقدمات ہیں ان کو جلد از جلد نمٹایا جائے۔