کابل میں دھماکےسے9غیر ملکیوں سمیت12ہلاک100زخمی

کابل(امت نیوز) کابل میں ہولناک دھماکے سے 9غیرملکیوں سمیت 12افراد ہلاک اور100 سے زائد زخمی ہو گئے۔ بارودسے بھرا ٹرک گرین ولیج سیکورٹی کمپائونڈ سے ٹکرایا گیا۔3 چیک پوسٹیں بھی تباہ اورقریبی عمارتوں کو شدید نقصانپہنچا۔علاقے میں این جی اوز دفاترموجود تھے۔ملبے سے مترجم اور2سیکورٹی گارڈز کی لاشیں بھی نکال لی گئیں۔ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔زخمیوں میں افغان شہری شامل ہیں۔ حملے کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔دوسری جانب صوبہ زابل میں امریکی ڈرون حملے سے 2بچے شہید ہوگئے۔طالبان نے واقعہ جنگی جرم قرار دیدیا ۔ تفصیلات کے مطابق پیر کی شام افغان دار الحکومت کے علاقے پی ڈی 9 میں واقع گرین ویلیج نامی بڑے سیکورٹی کمپاؤنڈ پرزور دار دھماکہ ہوا،جہاں غیرملکی این جی اوز کے دفاتر ہیں اور اس کا تحفظ غیرملکی فوجی کرتے ہیں۔البتہ کمپاؤنڈ کے بیرونی حصے میں نجی سیکورٹی گارڈز تعینات کیے گئے ہیں۔عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ شام 7 بجے جلال آباد روڈ پر ہواجس کی آواز کابل کے کئی علاقوں میں سنی گئی۔ دھماکے سے اطراف کی رہائشی عمارتوں اور گھروں کے شیشے ٹوٹ گئے جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔افغان وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ دھماکے کے نتیجے میں3 چیک پوسٹیں بھی تباہ ہوگئیں۔مذکورہ افسر کا کہنا ہے کہ گرین ولیج کمپائونڈ کے باہر تعینات متعدد نجی سیکورٹی گارڈز بھی شدید زخمی ہوئے ۔دھماکے سے زخمی 23 بچوں اور 12 خواتین سمیت 100 افراد کومختلف اسپتالوں میں منتقل کردیا گیا۔ افغان حکام نے 5 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔افغان صحافی زلمی افغان نے بتایا کہ دھماکے کے بعد 9 غیرملکیوں، ایک مترجم اور 2 افغان سیکورٹی گارڈز کی لاشوں کو کمپائونڈ سے باہر لایا گیا ،جبکہ کمپائونڈ کے اندر عمارتوں اور چیک پوسٹوں کے ملبے تلے دبی لاشوں کو نکالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس سے ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ زلمی افغان کے مطابق کمپائونڈ پرٹرک بم حملہ کیا گیا۔ افغانستان میں غیرملکی فوجیوں کے زیر کنٹرول اڈوں یا کمپائونڈز پر افغان سیکورٹی اہلکاروں کو بھی بغیر اجازت جانے کی اجازت نہیں۔دھماکے کے بعد اردگرد کے گھروں میں کھڑکیاں ٹوٹنے کے نقصان کے حوالے سے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کی جا رہی ہے۔افغان ٹی وی طلوع نیوز کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے تصدیق کی ہے کہ یہ ٹرک بم دھماکہ تھا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ دھماکہ گرین ویلج کے قریب ہوا اور اس کے نتیجے میں عام شہریوں کے گھر تباہ ہوئے ہیں۔طلوع نیوز نے ایک فوٹیج ٹوئٹر پر جاری کی ،جس میں جائے وقوعہ سے ایمبولینسوں کو واپس آتے دیکھا جا سکتا ہے۔ کابل کے وزیر اکبر اسپتال میں حیات خان نامی ایک زخمی نے بتایا کہ جب دھماکہ ہوا وہ لوگ کھانا کھا رہے تھےاور اس کے گھر کے 15 افراد زخمی ہوئے ہیں۔فوری طور پر کسی گروپ نے دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔افغان صدر اشرف غنی نے کہا کہ دھماکے کے ذمہ دار افغان عوام کی نفرت اور حکومت کے انتقام سے نہیں بچ سکیں گے۔ انہوں نے اسے غیر اسلامی قرار دیا۔دریں اثنا افغان طالبان کے ترجمان قاری یوسف احمدی نے کہا ہے کہ صوبہ زابل کے ضلع شاہ جوئے میں امریکی ڈرون طیاروں نے میدان میں کھیلتے بچوں پر میزائل حملہ کیا ،جس کے نتیجے میں 2 بچے شہید ہو گئے۔جبکہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق صوبہ پکتیکا کے ضلع ارگان کے مختلف علاقوں میں امریکی اور افغان فورسز نے ایک پیش امام سمیت 6 شہریوں کو شہید اورپانچ گھر تباہ کردیئے اور لوگوں کی املاک لوٹ لیں۔طالبان نے دونوں واقعات کو ’’جنگی جرائم‘‘ قرار دیا ہے۔

پشاور (نمائندہ خصوصی) افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات ملتوی ہونے کی وجوہات سامنے آگئی ہیں،’’امت ‘‘کو موصولہ اطلاعات کے مطابق امریکہ نے افغانستان سے فوجی انخلا افغان حکومت کو تسلیم کرنے سے مشروط کردیا ،جس سےطالبان نے انکار کردیا ہے۔ افغان طالبان نے پہلی بار یہ تسلیم کیا ہے کہ پاکستان نے مذاکرات کے حوالے سے مثبت کردار ادا کیا ہے ،تاہم امریکہ ،سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور افغان حکومت کے دبائو پر مذاکرات ملتوی کر دیئے ۔پہلے امریکی نمائندے خلیل زاد نے یہ مطالبہ کیا کہ جدہ میں مذاکرات ہوں گے ،جس کے حوالے سے طالبان کی شوریٰ نے کوئی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ہی طالبان کے علم میں تھا ،جس پر خلیل زاد کو کہا گیا کہ قطر میں مذاکرات ہو سکتے ہیں ،تاہم امریکی حکام کا اصرار تھا کہ افغان طالبان جدہ میں مذاکرات کریں گے اور جدہ میں ہی مذاکرات کے حوالے سے جو بھی پیش رفت ہو گی ،جدہ سے ہی اعلان کریں گے ،جبکہ طالبان امریکا کو یہ پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ جب بھی افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ ہو گا تو اس کا اعلان قطر سے کیا جائے گا ،لیکن خلیل زاد نے دو ٹوک انداز میں افغان طالبان کو بتایا کہ اگر بیرونی افواج کے انخلا پر پیش رفت چاہتے ہیں تو افغان حکومت کو تسلیم کرنا ہو گا ،جس پر افغان طالبان نے یہ ماننے سے انکار کر دیا ۔دوسری جانب قطر گزشتہ کئی سال سے افغان طالبان کو پوری دنیا میں مذاکرات کے حوالے سے سفر کیلئے 3 طیارے مہیا کررہا ہے اور 8 اور 9 جنوری کے حوالے سے بھی یہ طیارے طالبان کو پہنچانے کے لئے مطلوبہ مقامات پر کھڑے تھے ،لیکن امریکہ نے میزبان ملک کو بتایا کہ خلیل زاد قطر کے مذاکرات میں شرکت کے لئے دستیاب نہیں ہوں گے اور وہ چار ممالک کا دورہ کر رہے ہیں ،جس پر طالبان واپس اپنے مقامات پر چلے گئے ۔افغان طالبان کا کہنا ہے کہ اسلامی ممالک کو استعمال کر کے امریکہ پاکستان ،ترکی ،قطر،سعودی عرب ،ایران اور متحدہ عرب امارات سے ہمارے دوستانہ تعلقات کو خراب کرناچاہتا ہے ،کیونکہ ان ممالک کے ساتھ بطور مسلمان افغانوں کا اور افغان طالبان کا تعلق ہے ،لیکن امریکہ اب ان ممالک کی آپس میں دشمنی کو ہوا دینا چاہتا ہے ۔افغان طالبان نے بھارت کے کردار کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ بھارت کی افغانستان کے ساتھ کوئی سرحد نہیں ہے اور نہ ہی ماضی میں بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار رہا ہے ۔روسی حملے کے دوران بھی بھارت روس کا اتحادی تھا اور اب امریکہ کا اتحادی ہے ،لہذا بھارت کو اس معاملے میں دھکیلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ،جبکہ پڑوسی ممالک افغان جنگ سے متاثر ہوئے ہیں ،اس لئے ان کی شمولیت اور خدشات کے حوالے سے بات ہو سکتی ہے ۔افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلامی ممالک کے ذریعے دبائو ڈالنا اور اسلامی ممالک کے اندر اختلافات کو ہوا دے کر امریکا افغان جہاد کو بدنام کرنے کی کوششوں میں لگاہوا ہے ،جس طرح روس کے خلاف مجاہدین کی فتح کو خانہ جنگی کے ذریعے افغان قوم کو اس کے ثمرات سے محروم کر دیاگیا ۔اس لئے امریکا نے جنوری میں مذاکرات کے حوالے سے جو رویہ اختیار کیا ہے ،اس میں مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں ۔دوسری جانب افغان طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے بانی ساتھی ملا برادر کے بارے میں اطلاعات ہیں کہ وہ قطر پہنچ گئے ہیں اور انہیں ایک خصوصی طیارہ قطر لے گیا ہے ،تاہم طالبان نے اس امر کی تصدیق یا تردید سے انکار کیا ہے ۔افغان طالبان کا کہنا ہے کہ ملا برادر 3 ماہ قبل رہا ہوئے ہیں اور انہوں نے افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ کی بعیت کا خط بجھوایا تھا اور اس کے بعد ان کے بارے میں معلوم نہیں ہے کیونکہ وہ زیادہ وقت جیل میں رہے ہیں ،اس لئے و ہ اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں ،تاہم ذرائع کے مطابق ملا برادر 2 روز قبل قطر پہنچ گئے ہیں اور وہ قطر دفتر کے ممکنہ سیاسی عمل کے سربراہ ہونگے ،کیونکہ ملا برادر افغان طالبان کے زندہ بانی رہنمائوں میں واحد رہنما ہیں ،جو اس وقت زندہ ہیں اور وہ مذاکرات میں پیش رفت کر سکتے ہیں اور بعض فیصلے بھی کر سکتے ہیں ،تاہم ’’امت ‘‘کے ذرائع کے مطابق امریکا کے موجودہ رویے اور بعض ممالک کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات ختم ہو سکتے ہیں ،کیونکہ امریکا کی جانب سے نئی شرائط سامنے آنے کے بعد افغان طالبان مذاکرات میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں ،کیونکہ افغان حکومت کو تسلیم کرنے کے لئے افغا ن طالبان تیار نہیں ہیں ۔دوسری جانب ’’امت ‘‘کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکا کی کوشش ہے کہ اس مسئلے کو اتنا پیچیدہ بنایا جائے کہ اس کو افغانوں کا اندرونی جھگڑا پیش کرنے میں کامیاب ہو سکے ،کیونکہ طالبان کی جانب سے افغان حکومت کو نہ ماننے اور امریکا کو نکالنے کے بعد یہ نا صرف امریکا کی شکست ہو گی ،بلکہ دنیا کی مزاحمت کار تحریکوںکو زیادہ فائدہ ہو گا اور اس کا براہ راست اثر مقبوضہ کشمیر پر پڑے گا کہ وہاں پر جدوجہد کو مزید تقویت ملے گی کہ مسلسل اور صبر آزما جدوجہد سے کامیابی ممکن ہے ۔اس لئے بھارت کو افغانستان کے بجائے اپنی فکر ہے ،اسی لئے بھارت کے آرمی چیف کی جانب سے طالبان سے مذاکرات پر طالبان کا کہنا ہے کہ بھارت کا افغانستان میں کوئی کردار نہیں ہے اور نہ آئندہ رہے گا ،کیونکہ اس طرح کے بیانات سے افغان طالبان کی جدوجہد کو علاقائی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس حوالے سے زلمے خلیل زاد کی کوشش ہے کہ افغانوں کے اندر اختلافات پیدا کئے جائیں ،کیونکہ 1992ء میں افغان خانہ جنگی میں زلمے خلیل زاد کا کردار رہا ہے، کیونکہ اس وقت حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار ،جمعیت اسلامی کے مرحوم سربراہ پروفیسر برہان الدین ربانی اور استاد سیاف نے پشاورمیں زلمے خلیل زاد کے ساتھ ملاقات سے انکار کیا تھا ،جس کے بعد خلیل زاد کے شمالی افغانستان کے جنگجوئوں کے ساتھ روابط رہے ۔دریں اثناافغان طالبان کے ساتھ جاری مذاکرات میں امریکہ کی جانب سے 2 اہم مطالبات رکھے گئے ہیں کہ افغانستان میں امریکی فوجی اڈے موجود رہیں گے، نیز اس بات کی ضمانت دی جائے کہ افغان سرزمین مغرب کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔ذرائع کے مطابق اس کے بدلے میں امریکہ اور اس کے مغربی و عرب اتحادی امن معاہدے کے بعد افغانستان کی تعمیر اور بحالی کے لیے بھاری مالی امداد فراہم کریں گے۔ طالبان اگرچہ افغانستان سے امریکی فوج کے مکمل انخلا کا مطالبہ کرتے رہے ہیں ،مگر حال ہی میں متحدہ عرب امارات میں ہونے والے مذاکرات میں انھوں نے افغانستان میں فوجی اڈے برقرار رکھنے کی امریکی تجویز پر لچک دکھائی ہے۔ابو ظہبی میں ہونے والے مذاکرات کے انعقاد میں ڈونلڈ ٹرمپ کا خط ملنے کے بعد پاکستانی وزیراعظم نے اہم کردار ادا کیا تھا، خط میں پاکستان سے طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی درخواست کی گئی تھی۔ اسی وقت سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات امریکی مطالبات تسلیم کرنے کے لیے افغان طالبان کو راضی کرنے کے لیے کوششیں کرتے رہے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment